نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قومی یوم نوجوان اور ہندوستان میں NEETs کا مسئلہ National Youth Day and the problem of NEETs in India

 قومی یوم نوجوان اور ہندوستان میں NEETs کا مسئلہ

National Youth Day and the problem of NEETs in India
ازقلم:۔  ابوالکلام انصاری(بانسبیڑیا)
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال، ہندوستان
قلمکار

Abstract
In the year 1984, the Government of India announced that January 12, the birth anniversary of Swami Vivekananda, would be celebrated as National Youth Day. Thus, January 12, 1985, was celebrated as the first National Youth Day (Rashtriya Yuva Diwas), which continues to this day. This day is also known as Vivekananda Jayanti. The intention of the Government of India to celebrate this day is to inspire the youth through the influential life and philosophies of Swami Vivekananda. Like every year, this year too, the 14th National Youth Day will be celebrated on January 12, 2025, with the theme: Innovation in Science and Technology.

 سال 1984 ء میں حکومت ہند نے یہ اعلان کیا کہ12 جنوری یعنی سوامی ویویکا نند کے یوم ولادت کو قومی یوم نوجوان کے طور پر منایا جائے گا۔اس طرح آئندہ 12جنوری 1985 ء کو سب سے پہلا قومی یوم نوجوان(راشٹریا یوا دیوس یعنی (National Youth Day کے طور پر منایا گیا۔ جس کا سلسلہ آج تک چلاآرہا ہے۔ اس دن کوویویکا نند جینتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا حکومت ہند کا منشایہ ہے کہ سوامی ویویکا نند کی پراثر زندگی اور فلسفوں کے ذریعہ تحریک دیکر نوجوانوں کے مستقل کو سنوارا جا سکے۔ہر سال کی طرح امسال بھی ۱۴واں قومی یوم نوجوان 12 جنوری 2025 ء کو منایا جائے گا جس کا موضوع (Theme):  Innovation in Science and Technology ہے۔ 
 نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے میں ویویکا نند کے کردار:
سوامی ویویکا نند کی پیدائش12 جنوری 1863
ء کو بنگالی گھر انے میں کلکتہ میں ہوئی تھی۔ان کے بچپن کا نام نریندر ناتھ دتہ تھا۔ان کے والد وشو ناتھ دتہ کلکتہ ہائی کورٹ میں Attorney تھے۔ ان کی والدہ بھو بنیشوری دیوی ایک مذہبی خاتون تھی۔ان کے دادا درگا چرن دتہ اپنے زمانے کے سنسکرت اور فارسی کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے۔ان کے والد کی عقلیت پسندی اور والدہ کی مذہبی خیالات نے ان کی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار نبھایا۔ وہ چھوٹی عمر سے ہی روحانیت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ان کی شخصیت میں عقلیت پسندی، ترقی پسندی اور روحانیت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے قوم کے نوجوانوں کے فلاح وبہبود کے لیے بہت سارے فلسفے پیش کیے اور عملی اقدامات اٹھائیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱)  نیکی کی طاقت کا یقین:  انہوں نے نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر انسان ہمیشہ بھلائی یعنی نیکی کا کام کرے گا تو اس کے ساتھ بھی بھلائی کا معاملہ ہوگا جو اس کے ترقی کے لیے کافی معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
۲)  حسد اور بدگمانی سے پرہیز:  انسانیت سے محبت کا درس دیتے تھے۔کسی کے ساتھ حسد، جلن، بغض،کینہ اور بدگمانی رکھنے سے منع فرماتے تھے۔کیونکہ جو چیز انسان دوسروں کے لیے پسند کرتا ہے وہی لوٹ کر اسے ملتا ہے۔ اس لیے ان سب سے پرہیز کے ذریعہ خود ان سب سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
۳)  سب کی مدد کرنا:  انسانیت کی خدمت دنیا میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم انسانیت کا بھلا کریں گے تو قدرت کے طرف سے ہمارے ساتھ بھلائی کا معاملہ ہوگا اور ہمیں ہر کام میں مدد نصیب ہوگی۔
۴)  اپنی تقدیر کے خالق ہم خود:   انہوں نے نوجوانوں کو یہ بتایا کہ ہم خود ہی اپنے تقدیر کے خالق ہیں۔کیونکہ اگر ہم ایک ذمہ دار شہری نہیں ہے اور ہم نے اپنے آپ کو کمزوریوں،پستیوں،بدحالیوں سے نکالنے کی کوشش نہیں کی اور خود کو بہتر بنانے کی فکر نہیں کی تو ہماری حالت بدلنے والی نہیں ہے اور ہمارا نصیب بہتر ہونے والا نہیں ہے۔
۵)  منزل تک پہنچنے تک نہ رکنا:  انہوں نے نوجوانوں کو بتایا کہ جب تک کامیابی مل نہ جائے بیچ راہ میں اپنے کوششوں کو منقطع نہیں کرنا چاہیے بلکہ تسلسل کے ساتھ،لگن کے ساتھ،محنت کرتے ہوئے اپنی منزل کو پانا ہے۔
۶)  اچھا بننا اور اچھا کرنا:  اپنی شخصیت پر محنت کر کے خود کو بہتر سے بہتر بنانا اور سماج،ملک و قوم کے لیے خدمات  انجام دینا یہی سارا کا سارا دین ہے اور یہی ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے۔
۷)  طاقت زندگی ہے اور کمزوری موت ہے:  انہوں نے نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ طاقت ہی میں ہماری زندگی مضمر ہے ورنہ جہاں ہم کمزور ہوئے تو پھر کسی نہ کسی صورت میں ہمیں ناکامیوں، بربادیوں، پستیوں اور یہاں تک کہ موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۸)  اپنے اندر کے الوہیت کا اظہار کرنا:  قدرت نے ہمارے اندر طاقت اور خوبیوں کا ذخیرہ موجود رکھا ہے۔ اس پر یقین کرتے ہوئے خود کو باکمال، با صفات اور مضبوط بنا کر دنیا کی کامیابیاں سمیٹ لینا ہے۔
۹)  ہماری سوچ ہی ہمارے عمل کا عکاسی کرتا ہے:  ہمارے اندر جیسی سوچ و فکر ہوگی ویسا ہی ہمارا رویہ عمل ہوگا۔ ویسا ہی ہمارا کردار ہوگا۔کیونکہ عمل کا دارومدار نیت پر ہی ہوتا ہے۔ ہم جیسا فکر رکھیں گے ویسا ہی عمل کریں گے۔ کامیابی کی نیت ہمیں کامیاب اور ناکامی نیت ہمیں ناکام بنائے گی۔
۰۱)  سب سے بڑا گناہ اپنے آپ کو کمزور سمجھنا ہے:  انہوں نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کمزور سمجھیں۔کیونکہ قدرت نے ہمیں مضبوط بنایا ہے۔ہمیں اپنی کوشش کے ذریعہ اس مضبوطی کو اپنے اندر سے پہچاننا ہے اور اس کو مزید تقویت بخشتے ہوئے ترقی کی راہ پرگامزن ہونا ہے۔
 نوجوانوں کو تحریک دینے اور ان کو کامیابی کے راہ پر گامزن کرنے کے لیے انہوں نے جو بات کہی اس کوذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔
"Take up one idea, make that one idea your life, think of it, dream of it, live of it, let the brain, muscle, nerves, every part of your body be full of that idea and just leave every other idea alone." 
مندرجہ بالا باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند نے سوامی ویوکا نند کے یوم پیدائش کو قومی یوم نوجوان کے نام سے منانے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ سوامی ویکا نند جوصرف ۹۳سال اس دارفانی میں رہے اور4جولائی1902 ء کو رحلت فرما گئے، نے نوجوانوں کے لیے بہت سے قیمتی فلسفے،عملی اقدامات اور نشان راہ چھوڑے جن کے ذریعہ اس دور سے لے کر آج کے دور کے نوجوانان ہند کی مستقبل سنور سکتی ہے۔لیکن ان جیسے نوجوانوں کے رہنما گزرنے کے باوجود آج ہندوستان میں نوجوان کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سے ایکNEET کا مسئلہ بھی ہے۔
مسئلہ NEETs:۔  اس کے تحت ایسے نوجوانوں کا شمار ہوتا ہے جن کی عمر 15سے24 تک کی ہو اور وہ نہ ہی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت حاصل کر ر ہے ہوں اور نہ ہی برسر روزگار ہوں۔ ایسے نوجوانوں کو ہی  Not in Education, Employment or Training(NEET)  کے نام سے جانا جاتا ہے۔International Labour Organisation (ILO) کے ڈاٹا کے مطابق 2023 ء میں پوری دنیا میں 20.4 فیصد نوجوان NEET کے ضمرے میں شامل ہیں جبکہ ہندوستان میں 23.5 فیصد نوجوان اس ضمرے میں شامل ہیں۔شہری علاقوں کے بہ نسبت دیہی علاقوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ مردوں کے بجائے عورتوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔2023ء کے ڈاٹا کے مطابق ہندوستان کے مرد نوجوان 10.2 فیصد جبکہ خاتون نوجوان 38.1 فیصدNEET کے زمرے میں شامل ہیں۔
ہندوستان میں NEETs مسئلے کے وجوہات:۔ 
ہندوستان میں NEET کے مسئلے کا بڑھنے کے مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
۱)  گھریلو کام کاج میں مصروفیت:  15 سے 24 سال کے نوجوانوں بالخصوص خاتون نوجوان کی گھریلوکام کاج میں مصروفیت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔عوام الناس تعلیم و تربیت پر کم دھیان دے کر گھریلو کاموں کو فوقیت دیتے ہیں۔جس کے وجہ کر نوجوان تعلیم و تربیت اور روزگار سے محروم رہ جاتے ہیں۔
۲)  حوصلہ شکنی:  ہمارے سماج کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم کسی کی حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی زیادہ کرتے ہیں سماج اور رشتہ داروں میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو منفی باتیں کرتے نظر ائیں گے۔نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔کہتے ہیں کہ”یہ کام تم سے نہیں ہوگا۔یہ تمہارے لیے مشکل ہے۔ یہ سب کی بس کی بات نہیں“ وغیرہ وغیرہ۔اس طرح سے نوجوان پست ہمتی کا شکار ہو جاتے ہیں اور NEET جیسے مسئلے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
۳)  گھریلو دولت کے وجہ روزگار سے جی چرانا: بہت سارے امیر گھرانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کے نوجوان کا کاج اور روزگار سے جی چراتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے پاس تو اتنا ہے ہمیں کمانے کی کیا ضرورت اور اسطرح وہ اپنے آپ کو تعلیم و تربیت اور روزگار سے محروم کر لیتے ہیں اور NEET کے ضمرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
۴)  اسکول میں اندراج کے مواقع فراہم نہ ہو پانا: بہت سارے گھرانے بالخصوص غریب گھرانے ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ کرانے کے بجائے مختلف طرز کے بچہ مزدوری میں مشغول کر دیتے ہیں۔تھوڑے سے آمدنی کے لیے بچوں کو تعلیم و تربیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔اس طرح وہ NEET کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
۵)  روزگار کے متلاشی نوجوانان:  NEET کے زمرے میں ایسے بھی نوجوان شامل ہیں جو اپنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک ان کو روزگار میسر نہیں ہوا ہے۔
حکومت ہند کے ذریعہ NEET مسئلے کا حل:  حکومت ہند نے NEET مسئلے کے حل کے لیے مندرجہ ذیل  اقدامات اٹھائے ہیں۔
۱)  تعلیمی رسائی:  حکومت ہند نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے ابتدائی سطح سے ہی عمدہ قدم اٹھاتے ہوئے سروا شکشا ابھیان (SSA)  اور سامگرا شکشا ابھیان (SSA) کے تحت چھ سے چودہ سال کے بچوں کے لئے مفت و لازمی تعلیم کو عام کیا ہے اسکے علاوہ اعلیٰ سطح پر اکیڈمک، پروفیشنل اور ووکیشنل تعلیم کو مادری و علاقائی زبان میں عام کرنے کے علاوہ اندراج و نتائج کے بہتر سہولیات فراہم کیے گئے ہیں۔ ان سب سہولیات و مواقع کی بھر پور استفادہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو NEET جیسے مسائل سے تحفظ برتنے کی ضرورت ہے۔ 
۲)  روزگار بیداری اقدامات:  نوجوانوں کے صلاحیتوں کو ابھارنے،ان کے مہارت کو پروان چڑھانے اور پیشہ وارانہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں حکومت ہند نے خوب پہل دکھائی ہے۔حکومت ہند کی جانب سے وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے 41 ملین نوجوانوں کے روزگار اور فروغ مہارت کے لیے 3کھرب روپئے مرکزی بجٹ 2024-25 میں مختص کیے ہیں۔اس کے ذریعہ 5منصوبوں کو بروئے کار لاتے ہوئےNEET کے مسئلے کو دور کرنے کی کوشش کیے جائیں گے۔
 عصر حاضر کے نوجوانوں کی ذمہ داریاں:۔  15سے 24 سال کے سبھی نوجوانوں کو NEET جیسے مسئلے سے اپنے آپ کو دور رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
۱)  تعلیم و تربیت سے خود کو آراستہ کرنا:  نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو تعلیم سے مالا مال کریں۔ تربیت سے اپنے آپ کو آراستہ کریں اور بہتر سے بہتر پیشہ وارانہ صلاحیت کو اپنے اندر پیدا کریں اور بر سر روزگار بنیں۔ 
۲)  مثبت فکر کا عادی ہونا:  نوجوان اپنے آپ کو ہمیشہ مثبت فکر کا عادی بنائیں۔ منفی سوچ و فکر سے کوسوں دور رہیں۔ مثبت فکر ہی ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر یگی اور ان کو ایک کامیاب مستقبل سے ہمکنار کر ے گی۔ 
۳)  منفی سوچ سے پرہیز کرنا:  ”مجھ سے نہیں ہوگا“۔ ”یہ میرے لئے مشکل ہے“۔ ”میرا نصیب خراب ہے“۔ ”میرا ہر کام ادھورا رہ جاتا ہے“۔ ان جیسی تمام تر منفی سوچ و فکر سے نوجوان اپنے آپ کی حفاظت کریں اور ان سے کوسوں دور رہیں۔ تب جا کر کامیابی نصیب ہوگی۔ 
۴)  خود اعتمادی:  نوجوان اپنے آپ کو خود اعتماد بنائیں۔ کسی بھی مضمون، میدان یا پیشہ کا انتخاب کریں تو اپنے اوپر خوب خود اعتمادی کا مظاہرہ کریں اور لگن محنت کرتے رہیں۔ اپنے مہارت کو بڑھائیں۔ اسطرح سے وہ کامیاب ضرور ہونگے۔ 
۵)  اکتسابی تسلسل کو برقرار رکھنا:  سیکھنے کے عمل کو کبھی منقظع نہ کریں۔ بلکہ مسلسل سیکھنے کا عمل جاری رکھیں۔ اسطرح سے وہ NEET جیسے مسئلے سے دور چار نہیں ہونگے۔ 
۶)  گھریلو کام کاج اور پیشہ وارانہ کام کاج کے درمیان توازن کو برقرار رکھنا:  نوجوان اپنے کاموں میں توازن کو برقرار رکھیں۔ کسی ایک سمت میں زیاد ہ توجہ دیکر دوسرے سمت کو خراب نہ کریں۔ زندگی میں توازن کی بڑی اہمیت ہے۔ اپنے ہر ضرورتوں میں توازن بر قرار رکھنے والا شخص ہی ایک کامیاب زندگی گزارتا ہے۔ اس لئے گھر کے کام کے ساتھ ساتھ اپنے پیشہ وارانہ زندگی کو بھی تقویت بخشیں۔ 
۷)  گھریلو دولت پر اکتفا کر کے نہ بیٹھنا:  ہر نوجوان کو اپنے حصّے کی محنت خود کرنی چاہیئے۔ اسطرح سے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کرتا ہے۔ اپنے خاندان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ اگر گھریلو دولت پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے تو دولت ایک دن دھیرے دھیرے ختم ہو جائیگا۔ اور غربت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے اپنی دولت کی تحفظ و ارتقاء کے لئے بھی ہر نوجوان کو تعلیم تربیت اور روزگار سے اپنے آپ کو منسلک کر کے رکھنا ضروری ہے۔ 
۸)  بھائی چارہ کو بڑھا وا دینا:  ویویکا نند کے تعلیمات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے آپس میں بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہئے۔ ملک کے ہر طبقے کی مدد کرنی چاہئے۔ انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانا چاہئے۔ 

مندرجہ بالا باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے عوام الناس بالخصوص نوجوان طبقہ کو اپنا اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ اور نوجوانوں کو بالخصوص 15 سے 24 سال کے عمر کے نوجوانوں کو تعلیم و تربیت سے جوڑ کر کے رکھنا ہے تا کہ وہ بر سر روزگار ہو کر قوم و ملت کا نام روشن کر سکیں اور دنیا میں اپنے ملک کاوقار بلند کرسکیں۔ اسطرح سے NEET کا مسئلہ دھیرے دھیرے ہمارے ملک سے ختم ہو جائیگا۔ 
٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...