*دسمبر آگٸے ہو تم*
*آفتاب عالم قریشی*
*دسمبر آ گئے ہو تم*
*بھٹکتی یاد کے اک زخم کہنہ کے سجانے کو*
*نئے نشتر لگانے کو*
*مجھے بیتے ہوئے لمحوں کی ٹھنڈی راکھ میں آتش دکھانے کو*
*تو پھر سن لو*
*کہ اب اس دل میں اتنی برف ہے جس میں ہر اک موسم ہر اک منظر کو یکسر ڈوب جانا ہے*
*جُڑی ہیں جو تمھارے نام سے یادیں*
*وہ سب باتیں*
*وہ سب اب دفن ہیں اک یخ لحد میں*
*مرے سینے کی حد میں*
*سو میرے بے وفا ساتھی،*
*جو سب کچھ بھول بیٹھا ہے، سے کہ دو*
*دسمبر آنے جانے سے مجھے اب کچھ نہیں ہوتا*
*میں اب پرنم نہیں ہوتا*
*دسمبر آ گئے ہو تم*
*مگر تم کو بتا دوں میں*
*نہ مدہم دھڑکنیں ہوں گی نہ بھیگیں گی مِری آنکھیں*
*بھلے سے آؤ جاؤ تم یا جتنا وقت ٹھہرو تم*
*مجھے اب کچھ نہیں ہوتا*
*مجھے اب کچھ نہیں ہوگا*
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں