نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دکن میں اقبال کا اہم کارنامہ* ✒*حافظ عبدالرحیم*

 *دکن میں اقبال کا اہم کارنامہ* 


✒*حافظ عبدالرحیم* 


علامہ اقبال ابتدا ہی سے "اجتہاد فی الاسلام "یا" اسلام میں دینی تفکر کا انداز جدید" اس موضوع پر ہمیشہ غور و فکر کی گہرائیوں میں ڈوبے رہتے اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور علم کے مختلف دائرے میں تازہ تبدیلیوں کا خیال رکھتے ہوئے فکر اسلامی کی تعمیر نو ہو اس لیے کہ اسلام پر صدیوں پرانے جمود کے گرد کی ایسی چادریں ڈھکی ہوئی تھی کہ اس کی اصل صورت نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی تو انہوں نے اپنے برسا برس کے گہرے

مطالعے اور سوچ سے گرد صاف کر کے نہ صرف اس کی اصل صورت نمایاں کر دی بلکہ قدیم و جدید کے امتزاج سے اسے ایک ایسے انداز سے پیش کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کو حسن و خوبی کے ساتھ برآ ہو سکے 

             

              اسی اثنا میں اتفاقاً یہ ہوا کہ چوہدری رحمت علی خان جو امریکہ کی مسلم ایسوسییشن کے صدر تھے اقبال کے لیے ایک کتاب بزبان انگریزی Mohammadan Theory Of Finance  By Nicholes P.A Ghnider   "مسلمانوں کے نظریات مالیات" مصنف "نکو لاس بی اغنیدر" روانہ کی جس کے سر ورق پر انہوں نے خود یہ الفاظ لکھے تھے 

          الہدایہ فقہ اکبر رد المختار خدوری اور مسند امام اعظم 

                    اس کتاب کو عبداللہ چغتائ نے  انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ 1923 میں اقبال جب طلوع اسلام نظم سنائی اس وقت یہ کتاب انکو پیش کر دی اقبال نے اس کا مطالعہ بڑے غور و فکر سے کیا کسی موقع پر عبداللہ چغتائی سے اقبال نے کہا ماسٹر وہ کتاب جو تم دے گئے تھے بہت دلچسپ ہے اس میں ایک ایسا مقام بھی ہے جس کی تحقیق لازمی ہے یہی وہ جملہ ہے جو اقبال کہ انگریزی خطبات کا نقطہ ثابت ہوا 

As regards the ijma some honifites and the mu'tazilites held that the ijma can repeal the koran and the sunnah

      "جہاں تک اجماع کا تعلق ہے بعض حنفاء اور معتزلہ کا خیال تھا کہ اجماع قرآن و سنت کو منسوخ کر سکتا ہے"

(نوٹ۔۔اجماع سے نص قرانی کے منسوخ ہونے کا کوئی قائل نہیں امریکی مصنف نے غلط لکھا ہے 

آمدی "الاحکام "میں لکھتے ہیں ۔۔بعض معتزلہ کے برخلاف جمہور (عام علماء) کا مسلک یہ ہے کہ اجماع(consensus) قرانی نص کو منسوخ نہیں کرتا بعض معتزلہ ایسا کہتے تھے مگر ان کی رائے مقبول نہیں ہو سکی آمدی نے حصہ شرعی کے ایک خاص مسئلہ کے باب میں ایک حوالہ نقل کیا ہے پھر اس کا جواب دے دیا ہے اس سے امریکی مصنف کا استدلال غلط محض ہے )           شیخ عطاءاللہ ک م اقبال حاشیہ 533 


                اقبال ہر ایک کے سامنے اس موضوع کو رکھتے اس پر خوب گفتگو اور بحث کرتے انہی ایام میں لودھیانہ والی اہلیہ کا بحالت زجگی انتقال ہوا تو اقبال لودھیانہ میں رہے وہاں پر بھی انہوں نے مفتی حبیب الرحمن لودھیانوی مولوی محمد امین لودھیانوی سے علمی معقولات کے ضمن میں نہایت ٹھوس گفتگو کرتے رہے 

                           لاہور انے کے بعد مولوی سید طلحہ مولوی اصغر علی روحی مولانا غلام مرشد سے بھی اس سلسلے میں گفتگو اور بحث کر کے ان کے مشورے سے امام شاطبی کی کتاب "الموافقات" کا بھی مطالعہ فرمایا اس کے ساتھ ساتھ مولانا سید سلیمان ندوی جو علوم دینیہ اور اسلامی فلسفے میں پوری دسترس رکھنے کے علاوہ مغربی تمدن و فلسفہ قانون اور علوم جدیدہ  پر بھی نگاہ رکھتے تھے ان سے بھی خط و کتابت کے ذریعے اپنی مشکلات کا حل اور مندرجہ بالا جملے کے متعلق شرعی معلومات کے تحت کئی ایک سوالات کیے جن کا احاطہ 1924 سے لے کر 1929 تک کے خطوط پر پھیلا ہوا ہے ان میں سے چند ایک سوالات ملاحظہ ہو 

         "حال میں امریکہ کی مشہور یونیورسٹی کولمبیا نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے مسلمانوں کے نظریات متعلقہ مالیات اس کتاب میں لکھا ہے کہ اجماع امت نص قران کو منسوخ کر سکتا ہے یعنی کہ مثلاً مدت شیر خوارگی جو نص صریح کی رو سے دو سال ہے کم یا زیادہ ہو سکتا ہے یا حصص شرعی میراث میں کمی بیشی کر سکتا ہے    ( اقبال نامہ جلد ایک 139)

 

         دوسری جگہ لکھتے ہیں 

                 " اپ نے فرمایا ہے کہ فقہاء نے اجماع سے نص کی تفصیل جائز سمجھی ہے ایسی تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہ ہی کر سکتے ہیں یا علماء و مجتہدین امت بھی دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی ایسا بھی ہے جو صحابہ نے نص قران کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے"      ( اقبال نامہ جلد ایک 133 )

               ایک اور جگہ رقم طراز ہیں 

       "  قرون وسطی کے ایک یہودی حکیم موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خدا کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے بلکہ وہ زمان کو لحظہ بہ لحظہ پیدا کرتا ہے میمون نے قرطبہ کی مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پائی اس لیے کیا اس کا مذہب بھی کسی مسلم حکیم کی خوشہ چینی ہے 

ایہ وصیت کی وضاحت کیجئے "


اقبال جب ان تمام بحث و مباحث اور سوالات کے جوابات سے پوری طرح مطمئن ہو گئے تو اپ نے ان تمام بحثوں اور مطالعہ کو سامنے رکھ کر انگریزی میں ایک طویل مقالہ بعنوان "اجتہاد فی الاسلام" لکھنا شروع کیا جب مضمون تیار ہوا تو اپ نے دسمبر 1924 میں اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں زیر صدارت شیخ عبدالقادر بیرسٹر پڑھا اختتام پر اقبال نے فرمایا یہ مضمون ہنوز نامکمل ہے 

        جب اخبارات میں اس مضمون کا چرچہ ہوا تو بعض قدامت پسند علماء اس میں پیش کردہ خیالات پر معترض ہوئے اور اقبال پر کفر کے فتوے لگائے تو اقبال نے اپنے رد عمل کا اظہار مولانا اکبر شاہ  نجیب ابادی کو ایک خط تحریر کیا 


          "اپ نے ٹھیک فرمایا ہے کہ پیشہ ور مولویوں کا اثر سر سید احمد خان کی تحریک سے بہت کم ہو گیا تھا مگر خلافت کمیٹی نے اپنے پولیٹیکل فتوؤں کی خاطر ان کا اقتدار ہندی مسلمانوں میں پھر قائم کر دیا یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا احساس ابھی تک غالبا کسی کو نہیں ہوا مجھ کو حال ہی میں ایک اس کا تجربہ ہوا ہے کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک انگریزی مضمون لکھا تھا جو یہاں ایک جلسے میں پڑھا گیا تھا انشاءاللہ شائع ہوگا مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر کہا          (مکاتب جلد 2. 584)


            مولانا عبدالماجد دریا ابادی کو بھی اس مضمون کے معاملے میں رائے طلب کی تو مولانا نے اس کا اظہار  مخالفانہ  انداز کا کیا تو اقبال انہیں لکھا  


               "مگر اپ کا نوٹ پڑھ کر مجھے بہت تعجب ہوا معلوم ہوتا ہے کہ عدیم الفرصی کی وجہ سے اپ وہ مضمون بہت سرسری نظر سے دیکھا ہے بہرحال میں اپ کا خط زیر نظر رکھوں گا (مکاتب جلد 2. 582)


              یہ مضمون شائع نہیں ہوا لیکن لیکچر کے کچھ اختباسات اور تمام حالات ملک کے کئی ایک نامور اخباروں میں شائع ہوئے یہی تفصیل جنوب ہند مدراس کے ذی علم حضرات اور خاص طور پر سیٹھ جمال محمد اور ان کے سیکرٹری  حمید حسن نے اس خبر کا مطالعہ دلچسپی سے کیا 

         سیٹھ جمال محمد مدراس کے ایک بہت بڑے چرم کے تاجر اور ایک درد مند مسلمان تھے  ان کی تجارت اس زمانے میں ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی انہوں نے مدراس میں ندوۃ العلوم لکھنو کے طرز پر ایک مدرسہ جمالیہ اور کئی ایک خیراتی اداروں کے علاوہ ایک مسلم ایسوسی ایشن بھی قائم کر رکھی تھی جس کا مقصد معروف علمی شخصیتوں کو مدراس مدعو کر کے ان سے اسلام سے متعلق موضوعات پر خطبات دلوانا تھا قبل انہی کی دعوت پر سید سلیمان ندوی اور نو مسلم ڈاکٹر محمد پک تھال نے عالمانہ خطبے دیے تھے سیٹھ جمال محمد نے مسلم ایسوسی شین کی طرف سے علامہ اقبال کو  مدراس آ کر اجتہاد ہی کے موضوع پر خطبات پڑھنے کی دعوت دی اور تمام اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ لیکچروں کا معاوضہ بھی ادا کرنے کی ذمہ داری لے لی  


                    اقبال نے اجتہاد فی الاسلام پر جو لیکچر دیا تھا علماء کے فتویوں سے مایوس بھی ہو گئے تھے اس کے علاوہ وہ طویل سفر کی وجہ سے بھی اس دعوت نامے پر زیادہ توجہ بھی نہ دی تاہم ان کے خاص احباب نے اقبال کو توجہ دلا کر دعوت قبول کرنے پر امادہ کر لیا 

                  سب سے پہلے اقبال نے اسلام کی فلسفیانہ روایات کی تشکیل نو اور تمدن اسلام کی بعض نہایت اور اہم مسائل کے متعلق ہم عصری تقاضوں کی روشنی میں اپنی تحقیقات شروع کر دی سابقہ لیکچر پر ترمیم اور نامکمل ہونے کے ضمن میں صوفی غلام مصطفی تبسم کو لکھتے ہیں 

               "کچھ مدت ہوی میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا مگر دوران تحریر میں اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر اسان نہیں جیسا میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا تھا اس پر تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہے موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر محض اشارۃ بیان کی گئی ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے اج تک شائع نہیں کیا اب انشاءاللہ اسے ایک کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا"

                            مکاتب جلد 2. 598 


                اقبال نے اپنی خطبات تحریر کرتے وقت کئی کتابوں کے مطالعہ اور علماؤں سے رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے خط و کتابت بحث و مباحثہ کرتے رہے انہوں نے علوم اسلامیہ کے ساتھ دینی فکر کو جدید انداز میں پیش کرتے ہوئے فقہ اسلامی کی تشکیل، موجودہ زمانے کے فکری مسائل ،اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمت اسلامیہ کے بعد اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے٠ اسلام  سے متعلق اپنی تحقیقات کی بنیاد پر خدا کائنات اور انسان کے بارے میں اپنے نظریات کی وضاحت، احیائے علوم اسلامیہ کے ذریعے ہی اسلام اور جدید علوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے کی ترغیب، اور اس کی حقیقت کا احساس دلانا کہ یورپی تمدن کے فکری اور سائنٹیفک پہلوؤں کو قبول کرنے سے مراد کسی قسم کے غیر اسلامی علوم کی تحصیل یا تقلید نہیں بلکہ جو کچھ مسلمانوں نے عالم بیداری میں یورپ کو دیا اور یورپ نے اس میں اضافہ کیے اس فکری تسلسل کو ترقی یافتہ شکل میں واپس لے کر مزید اگے بڑھانا ہے ٠


     چنانچہ خطبات کے مقدمے اقبال فرماتے ہیں 

        "فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیت موجود نہیں ہوتی میرے پیش کردہ نظریات سے ممکن ہے بہتر اور مناسب نظریات پیش کیے جائیں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے روز افزوں ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے ازادانہ تنقید کار اختیار کریں یہی "

یہی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے انسانی فکر کا جو سرمایہ ان تک پہنچا اس کی تنقیداور تنقع کر کے مختلف فلسفیانہ مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوےایک مرتب نظام فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلامی الہیہات کی جدید تعبیر پر مبنی ہے علوم جدیدہ کی اصطلاحات کی روشنی میں مذہبی واردات کے حوالے سے اسلامی الہیات کی یہ تشریح بذات خود بہت مشکل کام تھا مزید براں یہ کہ اقبال نے اسی کام کے لیے نہایت اذق اسلوب اختیار کیا ٠ایسی کئی ایک باتیں جدید انداز فکر کی ملتی ہیں یہ خطبات فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہیں ان میں مشرق و مغرب کے ڈیڑھ سو سے زیادہ قدیم و جدید فلسفیوں سائنسدانوں عالموں اور فقہیوں کے اقوال و نظریات کے حوالے دیے گئے ہیں ان خطبات کو انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا سبب جب علامہ اقبال سے دریافت کیا گیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی روایت کے مطابق اقبال نے فرمایا 


                   "مسلمانوں میں دین والا ادمی جب فلسفہ کی اصطلاح میں بات کرتا ہے تو اس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوتا ہے مگر محض فلسفہ والا ادمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اس کی فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے اس میں وزن "


            علامہ اقبال کے ارشاد کے مطابق ان خطبات کا ترجمہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے نام سے کیا گیا نذیر نیازی فرماتے ہیں 


      "تشکیل ایک نئی فکر کی تشکیل ہے ،الہیات عقل اور ایمان کا وہ نقطہ اتصال ہے جس کی بنیاد علم پر ہے، اور اسلام محسوس حقائق کی اس دنیا میں زندگی کا راستہ ہے "

       اس تشریح سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فکر کی نئی تشکیل کے مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد علم بالحواس ہے اور ایمان کی بنیاد علم بالوحی  ہے اور اسلام کے فکری ارتقاء میں استقرائی عقل کا ظہور ہے اقبال عقل و فکر اور وجدان و ایمان کو ایک دوسرے کا معاون قرار دیتے ہیں 


      اسلامی فلسفے کی دنیا میں ان خطبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر اینی میری شمل اور ڈاکٹر حسن نصر نے خطبات کے فارسی ترجمے کے مقدمے میں ان خطبات کو دوسری احیائے علوم الدین کہا ہے یعنی جس طرح امام غزالی رحمت اللہ علیہ نے احیائے علوم الدین میں اپنے زمانے کے تمام فلسفیوں کا جائزہ لیتے ہوئے عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر اسلام کی برتری ثابت کی تھی وہی کام اس دور میں اقبال نے کیا ہے 

       یہ خطبات کم و بیش پانچ سال کی مدت میں تکمیل پائے اقبال نے اپنے تین خطبات کی اطلاع جناب خواجہ غلام سیدین کو دیتے ہیں 


      "جہاں تک خطبات کا تعلق ہے یہ اب تیار ہیں  

                     (مکاتب اقبال 3۔ 90 )

     ایک دوسرے خط میں حمید احمد انصاری کو اپنے تین خطبات کی ترتیب کو اگاہ کرتے ہیں 

   "مندرجہ ذیل تین خطبات مدراس اور حیدراباد میں حسب ذیل ترتیب میں دیے جائیں گے 

         1 علم اور مذہبی مشاہدات 

       2 مذہبی مشاہدات اور فلسفیانہ معیار 

       3ذات الہیہ کا تصور اور حقیقت دعا 


              بالاخر اقبال 30 دسمبر 1928 ء یہ طویل سفر شروع ہوا 5 جنوری 1929 کو مدراس پہنچے جہاں تین دن قیام رہا تینوں لیکچر گوکھلے ہال میں سنائے گئے 

     سیٹھ جمال محمد سے ملاقات ہوئی انہیں پہلی مرتبہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ان کی تعریف  یوں فرمائی 


       " اللہ اللہ یہ انسان ایک کروڑ کی سالانہ تجارت کرتا ہے تہبند کرتا پہنتا ہے اور حقیقت مادہ روح جیسے علمی مسائل پر انگریزی اردو میں گفتگو کرتا ہے اس کو فکر دامن گیر ہے کہ مسلمانوں کی قدیم اور نئی تعلیم کا حقیقی اتصال ہو اور اسلام اپنی اصلی شان میں دنیا پر ظاہر ہو مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں تک یہ ٹائپ Type نہ پیدا ہوگا نصب العین تک رسائی محال ہے    (شاعر اقبال نمبر 138 )


                  دھکن میں خطبات اقبال کا یہ علمی کارنامہ سیٹ جمال محمد ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی اور اقبال کی برسا برس کی یہ ارزو بھی پوری ہو گئی اس طرح ان کی یہ کوشش اور محنت جس کے ذریعے اسلامی تمدن کی قدیم فکری روایات فکر جدید کی روشنی میں پیش کر کے عہد حاضر کے مسلمانوں کو ترغیب دینا کہ مستقبل میں ایک نیا اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کی کوشش کریں اس اعتبار سے اقبال کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا کہ انہوں نے فکر و خیال کی ایسی ایمان افروز خندلیں روشن کر دی جن کی ضیاباری کا سلسلہ اج بھی قائم ہے 

ماخذ 

اقبال کی صحبت میں 

سرگزشت اقبال 

مکاتیب اقبال 

شاعر اقبال نمبر 

زندہ رود 

خطبات کی روشنی اقبال کے افکار

کا مختصر  جائزہ۔عابد صدیقی

                                                  ختم شد ✒

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...