* *اقبال اور فارسی شاعری* ✍️حافظ عبدالرحیم
علامہ اقبال نے جس زمانے میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اس دور میں قدیم مکتب نظام تعلیم میں فارسی زبان لازمی جزتھی چنانچہ اقبال نے اسکول کے اوقات کے بعد بھی مساجد و مکاتب میں مختلف مولوی صاحبان کے علاوہ میر حسن دہلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہو کر فارسی زبان حاصل کی جیسے وہ خود فرماتے ہیں
"لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیوں کر اگئی جبکہ اسکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی ،انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لیے اسکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا "
(اقبال نامہ صفحہ 343 )
اس مناسبت سےا قبال کو ابتدا ہی سے فارسی زبان میں شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا انہوں نے کبھی کبھی جستہ جستہ فارسی زبان میں شعر کہے
اقبال نے پہلی مرتبہ ایک نظم کے دو بند جو فارسی میں لکھے ہیں وہ ان کے خاص کشمیری دوست منشی سراج الدین کے چار انگشتری خدمت میں روانہ کرنے پر شکریہ کے طور پر لکھے تھے جو باقیات کے مجموعہ میں شامل ہے اسی طرح ڈاکٹر ارنلڈ کی رفاقت پر الوداعی کے طور پر ایک نظم فارسی میں لکھی اسی دور کی ایک اور نظم ہلال کے عنوان سے بھی لکھی
قیام یورپ کے زمانے میں علامہ اقبال نے اپنے تحقیقی مقالہ میں جن کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں وہ تمام کی تمام فارسی زبان کی کتابیں ہیں اسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مقالہ کی تیاری کے دوران تصوف اور الہیات ایران پر جو کتب بینی کی ہے وہ فارسی زبان میں ہی ہیں اس کے علاوہ ڈاکٹر نکلسن اور پروفیسر براؤن کے فیض صحبت نے اس کو اور بھی چار چاند لگا ۓاس سے بھی ان کی فارسی گوئی کا اندازہ ہوتا ہے
اقبال نے مستقل طور پر کوئی غزل یا نظم نہیں لکھی تھی جس کے متعلق عبدالقادر بیرسٹر لکھتے ہیں
" ایک مرتبہ یورپ میں ایک دوست کے پاس موجود تھے وہاں پر ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی تو اقبال کو یہ کہنا پڑا کہ ایک ادھ شعر کہنے کے سوا فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی اس کا اثر ان کے دل پر گزرا تو دوسرے دن صبح مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں لکھی تھی سنائی "
( مقدمہ بانگ درا )
اس سے بڑھ کر یہ بات بھی ہے کہ فلسفہ اور صوفیانہ خیالات کو ادا کرنے کے لیے دنیا کی زبانوں میں فارسی زبان سے زیادہ بہتر کوئی زبان نہیں تھی جبکہ ہندوستان میں اردو محدود زبان تھی اور پھر اردو زبان ان کے پیغام کے اظہار کے لیے متحمل بھی نہ تھی علاوہ این ک اسلامی ممالک نیز مغربی دنیا کا بھی خاصا بڑا طبقہ فارسی زبان سے شناسا تھا تو اقبال نے اپنا پیغام مغربی دنیا میں بھی پہنچانے کے لیے فارسی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا عبدالقادر بیرسٹر لکھتے ہیں
"جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفے کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقی خیالات کے اظہار کو دیکھا تو فارسی کے مقابلے میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقر ےاور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں جن کے مطابق اردو میں فقر ےڈھالنا اسان نہیں اس لیے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے اس سلسلے میں مولانا گرامی کو لکھتے ہیں
" اردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہوتا جاتا ہوں فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اردو میں نکال نہیں سکتا"
(کلیات مکاتب جلد ایک صفحہ 332)
بہرحال اقبال کو متعدد اسباب سے فارسی زبان پر پوری طرح دسترس حاصل ہو گئی تھی یورپ سے واپسی کے چھ سال بعد فارسی زبان میں شاعری کا باضابطہ اغاز مثنوی اسرار خودی سے کیا اس کے متعلق عطیہ فیضی کو لکھتے ہیں
"میرے والد نے کہا ہے کہ میں بو علی قلندر کی پیروی میں ایک فارسی مثنوی لکھوں اگرچہ کہ یہ کام مشکل تھا لیکن میں نے وعدہ کر لیا ہے
( اقبال عطیہ فیضی )
جبکہ مثنوی شاعری کی صنف میں سب سے زیادہ مشکل اور پھر فارسی زبان میں اور مشکل کام ہے اسی لیے اقبال نے اپنے خط میں لکھا کہ یہ کام مشکل تھا لہذا وہ مثنوی اسرار خودی کو اردو میں لکھنے کے تعلق سے رقمطراز ہیں
" میں نے اسرار خودی پہلے اردو میں لکھنی شروع کی تھی مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہا جو حصہ لکھا گیا اس کو تلف کر دیا گیا کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی، تقریبا ڈیڑھ سو اشعار لکھے مگر میں نے ان سے مطمئن نہیں ہوں"
( انوار اقبال صفحہ 156)
اس خط سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مطالب ادا کرنے سے قاصر رہے کیونکہ زبان ،اظہار خیال کا ذریعہ ہے اقبال پوری ملت اسلامیہ کو اپنا پیغام دینا چاہتے تھے لہذا وہ مثنوی کو فارسی زبان میں تحریر کرنے کے سلسلے میں رقم طراز ہیں
"1905ء میں جب انگلستان ایا تھا تو میں محسوس کر چکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسان کے لیے امید ہمت اور جراءت عمل کا پیغام ہوتی ہے جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعمیر کرنا چاہیے یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر ائیں لیکن ان کے مقابلے کے لیے سائنس کھڑی تھی جو ان کو افسردہ کر رہی تھی 1908ء میں جب انگلستان سے واپس ایا تو میرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریبا وہی تھی جو مشرقی ادویات کی تھی ان حالات سے میرے دل میں کشمکش پیدا ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے اور ان میں روح پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہیے میں اپنے وطن گیا یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میں اس درجے منہمک تھا کہ تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں
1910ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہیے لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی بہرحال میں نے 1910 میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر اپنی مثنوی اسرار خودی لکھنی شروع کی، اردو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے شروع کرنے کے متعلق اب تک مختلف لوگوں نے مختلف توجہات پیش کی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اج میں یہ راز بھی بتا دوں کہ میں نے فارسی میں شعر کیوں کہنے شروع کیۓ بعض اصحاب خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں میں نے اس لیے اختیار کی کہ میرے خیالات وسیع حلقے میں پہنچ جائیں حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا میں نے اپنی مثنوی اسرار خودی کی ابتدا صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے میری غرض یہ تھی کہ خیالات ،میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں وہ کم از کم حلقے تک پہنچے اس وقت مجھے یہ خیال بھی تھا کہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر جائے گی یا سمندر کا سینہ چیر کر یورپ پہنچ جائے گی بلاشبہ یہ صحیح ہے اس کے بعد فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں اسی زبان میں شیر کہتا رہا "
(زندہ رود صفحہ 202
اوپر کی تحریر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے فارسی زبان اور اس کی اہمیت کو بڑے جامع انداز میں پیش کیا ہے مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اس پر اور کچھ لکھا جائے اقبال نے اپنی فارسی شاعری سے قبل شعرائے ایران میں انیس شاملو، ابو طالب کلیم صائب ،فیضی، بیدل ،ملا عرشی ،خاخانی، خواجہ حافظ، مولانا روم ،مشدی، کے علاوہ دیگر شعرائے عجم کے ساتھ غنی کشمیری مظہر جاناں جاں، امیر خسرو کے کلام سے بھی استفادہ کیا
اقبال نے اپنے فارسی کلام میں الفاظ اور طرز بیاں کی سطح پر متاخرین شعراۓ ایران کی شستہ زبان اور خواجہ حافظ مولانا روم کا پرجوش انداز بیان اختیار کیا ہے اس سلسلے میں نظیری نیشا پوری جلال اسیری عرفی، غزالی، مشہدی، طالب آملی، وغیرہ کے فارسی دیوان کو سامنے رکھتے ہوئے لکھتے ہیں
" ان کی مزادلت سے مذاق صحیح خود بخود پیدا ہوگا اور زبان کے محاورات سے بھی واقفیت پیدا ہوگی" ( کلیات مکاتب صفحہ 425 )
اس کے علاوہ اقبال مولانا غلام قادر گرامی کا اسلوب بیان اور انداز اظہار کے اعتبار سے بعض نازک امور میں جو مذاکرات ناگزیر تھے اور پھر اپنے کلام کے فنی پہلوؤں کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے خط لکھ کر مبادل خیالات ،ظاہر کرتے اس طرح اقبال کو مولانا گرامی سے فارسی زبان اور فن شعر کی باریکیوں کو سمجھنے اور کلام میں اسلوب بیان کے سلسلے میں خاصہ فائدہ ہوا گرامی کی نسبت لکھتے ہیں
"گرامی جہانگیری بہار کا اخری پھول ہے جو ذرا دیر کے بعد شاخ سے پھوٹا افسوس اج خان خاناں نہ ہوئے کہ ان کو معلوم ہوتا خاک پنجاب شیراز اور نیشاپور سے کسی طرح کم نہیں "
( مکاتب اقبال بنا میں گرامی صفحہ 144 )
ایک اور مرتبہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں مولانا گرامی کا تعارف کراتے ہوئے کہا"
"گرامی اکابر شعرائے فارسی میں سے ہیں اج اسے سن لو تو فخر کرو گے"
مولانا گرامی سے اقبال کے قدیم تعلقات تھے مولانا صرف فارسی اساتذہ کے کلام سے پوری طرح شناسا تھے بلکہ کئی برسوں سے ان اساتذہ کے انداز میں شعر بھی کہتے تھے مثنوی اسرار خودی کی شروعات سے قبل اقبال کی فارسی شاعری کا نیا دور شروع ہوتا مختصر طور پر ان کی فارسی زبان اور شاعری پر روشنی ڈالنا بے جاننا ہوگا
اقبال کی شاعری میں لطافت اورنگینی پائی جاتی ہے اور مضامین کو ایک شعر میں ختم کرتے ہیں ان کی فارسی شاعری میں سب سے زیادہ غزل کی اہمیت ہے جس کے مضامین صرف ایک شعر میں ختم ہو جاتے ہیں ان کی غزل میں شیرینی اور نرمی کے ساتھ ساتھ سوز و گداز بھی پایا جاتا ہے اس کے علاوہ خواجہ حافظ کی طرح سرمستیاں بھی پائی جاتی ہیں اقبال کی غزل میں عاشقانہ اور رندانہ مضامین کے علاوہ ان کا پورا فلسفہ خودی بھی موجود ہے
اقبال کے دو قطعات لکھنے کا انداز ان کے خیالات کےتنوع میں اردو اور فارسی کا کوئی شاعر ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتا اس کی ابتدا پیام مشرق سے کی اور ارمغان حجاز پر اس کا خاتمہ کیا جیسے کہ انسان میں اعتماد النفس ،جرات ،بے باکی، کی تعلیم تقلید ،سے بیزاری اجتہاد ،کی ترغیب صوفیانہ تجرد اور گوشہ نشینی کی مخالفت خودی اور خود شناسی کی سرخیاں قائم کر کے ہر قسم کے خیالات قطعات میں ظاہر کیے ہیں
اقبال کی فارسی نظموں میں فلسفہ شعر و سیاست کا رنگ جھلکتا ہے شعرائے ایران کے جدید طرز وانداز میں بہاریہ قصائد اور بالخصوص کشمیر کے دلفریب مناظر اور خوشگوار اب و ہوا ان کی شاعرانہ قوت کو اور ابھارا ہے اقبال کی نظموں میں فلسفہ خودی کے ذریعے اپنے پیام زندگی کو نہایت شاعرنہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے اقبال کی فارسی مثنوی میں وائزانہ رنگ پایا جاتا ہے اس کے علاوہ ان مثنویوں میں ان کے فلسفیانہ عقائد سادگی سے واضح ہوتے ہیں اس میں اقبال ایک مجدد مصلح اور مبلغ کی حیثیت رکھتے ہیں مولانا روم کی طرح تمام مسائل شاعرانہ تمصیلات سے سمجھاتے ہیں ان کی شاعری کا مقصد سیاست تعلیم اور تصوف کے علاوہ ہر چیز میں انقلاب پیدا کرنا ہے یہی ان کی فارسی شاعری کا مقصد و مدعا ہے۔۔ختم شد💦
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں