★درسِ قرآن ★
اور(پھر ایسا ھوا کہ ایک دن) بادشاہ نے (اپنے تمام درباریوِں کو جمع کر کے) کہا: میں (خواب میں ) دیکھتا ھوں کہ سات گائیں ھیں موٹی تازی انھیں سات دبلی پتلی گائیں نگل رھی ھیں اور سات بالیں ھری ھیں اور سات دوسری سوکھیں ـ اے اھلِ دربار! اگر تم خواب کا مطلب حل کر لیا کرتے ھو تو بتلاؤ میرے خواب کا حل کیا ھے؟
درباریوں نے (غوروفکر کے بعد)کہا: یہ پریشان خواب و خیالات ھیں (کوئی ایسی بات نہیں جس کا کوئی خاص مطلب ھو) اور ھم (سچے خوابوں کا مطلب تو حل کر سکتے ھیں لیکن) پریشان خوابوں کا حل نہیں جانتے ـ اور جس آدمی نے (ان) دو َقیدیوں میں سے نجات پائی تھی اور جسے عرصے کے بعد (یوسف کی) بات یاد آئی، وہ (خواب کا معاملہ سن کر) بول اٹھا: میں اس خواب کا نتیجہ تمھیں بتلا دوں گا ـ تم مجھے (ایک جگہ)جانے دو ـ (چناچہ وہ قیدخانے میں آیا اور کہا: ) اے یوسف! اے کہ مجسم سچائی ھے! اس (خواب ) کا ھمیں حل بتا کہ سات موٹی تازی گایوں کو سات دبلی پتلی گائیں نگل رھی ھیں اور سات بالیں ھری ھیں، سات سوکھی، تاکہ (ان) لوگوں کے پاس واپس جا سکوں (جنھوں نے مجھے بھیجا ھے) ـ کیا عجب ھے وہ (تمھاری قدر ومنزلت) معلوم کر لیں ـ یوسف نے کہا " (اس خواب کی تعبیر اور اس کے بنا پر تمھیں جو کچھ کرنا چاھیے وہ یہ ھے کہ) سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رھو گے (ان برسوں میں خوب بڑھتی ھو گی) ـ پس (جب فصل کاٹنے کا وقت آیا کرے تو) جو کچھ کاٹو اسے اس کی بالیوں ھی میں رھنے دو (تاکہ اناج سڑے گلے نہیں) اور صرف اتنی مقدار الگ کرلیا کرو جو تمھارے کھانے کے لیے (ضروری)ھو ـ پھر اس کے بعد سات بڑے سخت مصیبت کے برس آئیں گے جو وہ سب ذخیرہ کھا جائیں گے جو تم نے (اس طرح) پہلے سے جمع کر رکھا ھو گا، مگر ھاں تھوڑا سا جو تم روک رکھو گے (بچ رھے گا) ـ پھر اس کے بعد ایک برس ایسا آے گا کہ لوگوں پر خوب بارش بھیجی جائے گی ـ لوگ اس میں (پھلوں اور دانوں سے) عرق اور تیل خوب نکالیں گے ـ
(سورہ یوسف ـ آیت ۴۳-۴۹)
................................................................
اس کے بعد وہ معاملہ پیش آیا جس کی طرف آیت ۴۳ میں اشارہ کیا ھے، یعنی بادشاہ مصر نے ایک عجیب طرح کا خواب دیکھا اور جب دربار کے دانش مندوں سے تعبیر دریافت کی تو کوئی تشفی بخش جواب دے نہ سکے ـ تورات میں ھے کہ بادشاہ نے مصر کے تمام حکیموں اور جادوگروں کو جمع کیا تھا، مگر کوئی اس کی تعبیر بتلا نہ سکا ـ
یہاں قرآن میں درباریوں کا جو جواب نقل کیا ھے اس کا مطلب یہ معلوم ھوتا ھے کہ جب کوئی تشفی بخش بات معلوم نہ کر سکے تو کوشش کی کہ بادشاہ کے دل سے اس خواب کی اہمیت کا خیال نکال دیں ـ پس انھوں نے کہا: یہ کوئی روحانی بات نہیں ھے، ویسے ھی پرشان خیالی سے طرح طرح کی باتیں سوتے میں نظر آگئی ھیں ـ لیکن سردارِ ساقی کو خواب کی باتیں سن کر اپنے خواب کا معاملہ یاد آگیا اور ساتھ ھی یہ بات بھی یاد آگئی کہ حضرت یوسف نے کیا کہا تھا ـ تب اس نے اپنا واقعہ بادشاہ کے گوش گذار کیا اور قید خانے میں جاکر یوسف سے ملا ـ حضرت یوسف نے فرمایا:سات گایوں سے مقصود زراعت کے سات برس ھیں، آیندہ سات برس تک بہت اچھی فصلیں ہوں گی، یہ گویا سات موٹی گائیں ھوں گی ـ اس کے بعد سات برس تک متواتر قحط رہے گا، یہ سات دبلی گائیں ھوئیں ـ انھوں نے موٹی گائیں نگل لیں، یعنی فراوانی نے قحط کو نابود کر دیا ـ سات ھری بالیوں اورسات سوکھی بالیوں میں بھی یہی بات واضح کی گئی ھے ـ پھر فرمایا: اس آنے والی مصیبت سے ملک کو کیوں کر بچایا جا سکتا ھے؟ اس کی تدبیر یہ ھے کہ بڑھتی کے سات برسوں میں قحط کے لیے اناج ذخیرہ کیا جائے اور اسے اس طرح محفوظ رکھا جائے کہ آنے والے سات برسوں میں ملک کے لیے کفالت کرے ـ
یہ قرآن کے ایجاز و بلاغت میں سے ھے کہ تعبیر اور تدبیر کو الگ الگ بیان نہیں کیا، ایک ساتھ ھی بیان کردیا، تاکہ تکرار بیان کی حاجت نہ رھے ـ
جب سردارِ ساقی نے حضرت یوسف کا جواب بادشاہ کو سنایا تو تعبیر اس درجہ واضح اور چسپاں تھی کہ اس نے سنتے ھی اس کی تصدیق کی اور ان کی ملاقات کا مشتاق ھو گیا ـ چناچہ حکم دیا: فورا انھیں قید خانے سے نکالا جائے اور دربار میں لایا جائے ـ
(مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۷۵۵-۷۶۰)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں