*بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار*
✍️حافظ عبدالرحیم
"میں نہیں سمجھتا تھا کہ ہندوستان کا ایک والی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے نواب صاحب قوم و ملک کی ایک قابل فخر ہستی ہیں "
اقبال نے مندرجہ بالا الفاظ نواب حمید اللہ خان والی بھوپال کی تعریف میں فرمائی تھی نواب صاحب ہندوستان میں تحریک ازادی اور تقسیم ہند کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے مسلم لیڈروں اور دانشوروں کو صلاح و مشہوروں سے نوازنے کے لیے ایک کانفرنس 10 مئ/ 1931ءکو بھوپال میں بلائی تھی اقبال کا یہ پہلا سفر سیاسی مقاصد کے سلسلے میں ہوا تھا جہاں اقبال نے نواب حمید اللہ خان سے راست ملاقات کر کے ان کی شخصیت علمی قابلیت اور سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر ہوئے تھے
قیام بھوپال کے زمانے میں اقبال کے تخلیقی شاہکار پر روشنی ڈالنے سے قبل بھوپال والئ بھوپال نواب حمید اللہ خان اور ان کے نامور شریک کار و ناظم تعلیمات صحت و امور ڈاکٹر سرراس مسعود جن کی قربت اور محبت نے اقبال کو بھوپال مدعو کیا تھا مختصر تعارف کیا جانا ناگزیر ہوگا
*بھوپال*
بھوپال وسط ہند کی چھوٹی سی مسلم ریاست جو پہاڑوں جھیلوں اور تالابوں کے درمیان حسین دلکش مناظر قدرت سے گری ہوئی ہے بر صغیر کی ازادی سے قبل ہندوستان کی جن مسلم ریاستوں کی علمی ادبی اور لسانی خصوصیت جو قابل ذکر ہیں ان میں ریاست حیدراباد کے بعد ریاست بھوپال کا نام سر فہرست ہے اس مسلم ریاست کے حکمرانوں میں علم و ادب سے جتنا گہرا شغف پایا جاتا تھا اتنا ہی فن تعمیر میں بھی خاص لگاؤ تھا یہاں پر شکوہ اور قابل دید عمارتیں محلات جو فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہیں ان محلات میں قصر سلطانی، شملہ پہاڑوں کے محلات ،عیدگاہ کوٹھی، اور ملحقہ محلات صدر منزل، شیش محل، موتی محل، ہوا محل، قصر راحت منزل، گوہر محل، ریاض منزل، اور قدسیہ محل ،وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ یہ شہر مسجدوں کا شہر بھی کہلاتا ہے یہاں کی بنی ہوئی عالی شان مساجد تاج المساجد ،یعنی موتی مسجد، جو فن تعمیر میں اعلی مقام رکھتی ہے اس طرح بھوپال اپنی خوبیوں اور خوبصورتیوں کے لیے بڑی شہرت رکھتا ہے اس دور کی شان و شوکت کو دیکھ کر مولانا حافظ اسلم جیراج پوری نے اپنے مقالات میں بھوپال کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ
"بھوپال کی حیثیت اس وقت بغداد الہند کی تھی "
بھوپال کے فرما روا میں کئی مشہور و ممتا شخصیتیں ملتی ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ ریاست کے اخری فرمانروا نواب حمید اللہ خان کا دور بلا شبہ سنہری دور کہلاتا ہے
*نواب حمید اللہ خان*
بھوپال میں پیدا ہوئے علی گڑھ میں تعلیم پائی یہ والی ہند میں پہلے گریجویٹ ہوئے نواب صاحب نہایت روشن خیال علم دوست عالی و دماغ بالغ نظر سیاسی مدبر اور صاحب بصیرت فرما روا تھے انہوں نے بھوپال کی علمی تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا اپنے دور حکومت میں جدید تقاضوں کے مطابق متعدد ائینی اصلاحات کی ریاست میں قانون ساز کونسل قائم کیا صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھایا اپنے ابا و اجداد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اہل علم کی قدردانی حوصلہ افزائی اور مالی عانت کو اپنا شعار بنائے رکھا اقبال ان دانشوروں میں سے ہیں جنہوں نے بھوپال سے وظیفہ پایا
*ڈاکٹر سرراس مسعود*
سر سید احمد خان کے پوتے سر محمود کے فرزند ارجمند تھے حیدراباد میں ناظم تعلیمات کی طویل ترین ملازمت کے بعد وہ علی گڑھ کے وائس چانسلر بنائے گئے انہوں نے خلوص و لگن دیانت اور محنت کے ساتھ ساتھ مالی و فنی لحاظ سے جو ابیاری کی جس کے نتیجے میں وہ سازشوں کا شکار ہو گئے اور ان کے تاریخ ساز عہد افرین کارناموں کو نظر انداز کر کے انہیں دل برداشتہ کر دیا تو وہ مستعفی ہو گئے بعد اذان نواب صاحب بھوپال نے انہیں اپنے شریک کار کی حیثیت سے وزارت تعلیم و صحت امور کا قلمدان سونپ دیا تو بھوپال کی علمی اور تعلیمی سرگرمیوں میں جان پڑ گئی یہ ان کی زندگی کا اخری زرین دور تھا راس مسعود ملیریا کے دس ،بارہ دن عارض میں مبتلا ہو کر 1937ء کو دنیا سے چل بسے
سراس مسوس سے اقبال کے تعلقات اس وقت شروع ہوئے جب اقبال توسیعی لیکچروں کے سلسلے میں حیدراباد گئے تھے یہ روابط رفتہ رفتہ دوستی اور محبت میں تبدیل ہو کر سفر افغانستان پر اور مستحکم ہو گئے جب اقبال بیماری میں سخت مبتلا تھے تو اس وقت سرراس مسعود انہیں بھوپال آ کر علاج کرانے کی درخواست کرتے رہے
بلا اخر31 جنوری 1935ء، اقبال بغرض علاج بھوپال پہنچے ریاض منزل دولت کدہ راس مسعود میں قیام فرمایا یہ دوسرا سفر بھوپال تھا یہیں سے اقبال کے وہ تخلیقی نقوش کا سلسلہ شروع ہوا جو برسوں سے ان کے ذہن میں تھا بھوپال کے پرسکون ماحول میں وہ اجاگر ہو کر قوم کے سامنے ایا ان میں سے ضرب کلیم قران مجید کے حواشی کا خاکہ، رد قادیانیت پر مضامین اور مثنوی پس چہ باید کر داے اقوام شرق ہیں مندرجہ بالا تخلیقات کا جائزہ لیا جائے گا جو اج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں سفر بھوپال کی روداد میں نواب حمید اللہ خان سے دوسری ملاقات پر ممنون حسن خان رقم طراز ہیں
نواب صاحب بڑے احترام اور محبت کے ساتھ علامہ سے ملے پھر نواب صاحب اقبال کو اپنے کمرے میں لے گئے جلد ہی کافی کا دور چلا نواب صاحب نے دریافت کیا کہ اقبال صاحب اپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے جس پر علامہ نے کہا کہ کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف نہیں ہے نواب صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو علامہ نے بیماری اور تمام علاج کی تفصیلات بتائی اس کے بعد گفتگو کا موضوع بدل گیا نواب صاحب نے این انٹرپریشن اف ہولی قران ان دی لائٹ اف ماڈرن فلاسفی
(An interpretation Of Holy Quran In The Light Of Modern Philosophy)
دریافت کیا تو علامہ نے بتلایا کہ اس کتاب کا خاکہ میرے ذہن میں ہے کچھ تیار بھی کیا ہے لیکن کچھ کتابیں بیرون ملک میں ہیں انہیں دیکھ لینا چاہتا ہوں نواب صاحب نے کہا اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ساری ملت اسلامیہ بلکہ ساری دنیا کے لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اپ نے مجھے جو تحفے دیے ہیں انمیں سے بڑا تحفہ ہوگا اگر اس میں کچھ امداد کی ضرورت ہو تو جیسا کہ میں نے مسعود سے کہا ہے ہر طرح کی امداد کے لیے تیار ہوں
(علامہ اقبال بھوپال میں 11 )
بھوپال میں اقبال کا علاج باقاعدہ شروع ہوا طبی معائنہ اور علاج کی تشخیص کے بعد بجلی کا کورس طے کیا گیا جو ایک ماہ سات دن تک ہوتا رہا اقبال بیماری کے اخر دنوں میں مالی اعتبار سے کافی پریشان تھے ان کی پریشانی کوسر راس مسعودنے ایک ماہ طویل عرصہ میں بہت قریب سے دیکھا تھا اور ان کو مالی الجھنوں اور ذہنی پریشانیوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے مخلصانہ کوشش کرتے رہے تاکہ اقبال اپنے قیمتی وقت اس عظیم خدمت کے لیے وقف کر سکے لیکن اقبال اپنی مالی الجھنوں کو پس پردہ رکھتے ہوئے سرراس مسعود کو لکھتے ہیں
"اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قران کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نامعلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا اگر حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر ائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قران کریم کے ان نوٹوں سے بہتر کوئی پیشکش مسلمان عالم کو نہیں کر سکتا
( اقبال نامہ جلد ا، 356 )
اقبال ایک ماہ کے طویل عرصے میں ان کے دوسرے شاہکار کا خاکہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ریاض منزل کے ایک وسیع پر شکوہ دو منزلہ عمارت جو شہر سے دور جس کے چار جانب خوبصورت پہاڑوں اور جھیلوں سے گری ہوئی تھی اس کے ارد گرد کے حسین و دل کش مناظر اور سرراس مسعود جیسے جانثار دوست کی قربت میں اقبال کافی مسرور و مطمئن ہو کر وہ تاریخ ساز نظمیں لکھیں جو ہمیشہ ریاض منزل بھوپال اور سراس مسعود کی یاد تازہ کرتی رہیں گی اس تخلیق کا مکمل خاکہ علاج کے دوسرے مرحلے میں کیا جائے گا
سرراس مسعور اقبال کو دوسرے کورس کا علاج بھوپال میں نواب حمید اللہ خان کے مہمان رہ کر کرانے کا مشورہ دیا اقبال اپنی بیگم کی سخت علالت کے سبب انتقال ہونے اور قران مجید کے حواشی کے تعلق سے راس مسعود کو لکھتے ہیں
" میری خواہش تو حقیقت میں اس انسان کی خواہش ہے جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور سفر اخرت سے پہلے کچھ نہ کچھ خدمت انجام دینے کا تمنائی ہے، ساڑھے پانچ بجے میری بیوی کا انتقال ہو گیا"
( اقبال نامہ 360 جلد ا)
بیوی کی رحلت کے بعد گھر کے بگڑے ہوئے ماحول اور بچوں کی نگہداشت سے مطمئن ہو کر سرراس مسعود کو لکھتے ہیں
" چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قران کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاؤں جو تھوڑی سی ہمت اور طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اس خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن اپ کے جد امجد حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھے اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا "
( اقبال نامہ جلد ا، 361)
" دوسری جگہ سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قران شریف پر نوٹ لکھنے میں صرف کروں گا "
(مکتوبات اقبال 275 )
سرراس مسعود اقبال کو مالی الجھن اور ذہنی پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نواب صاحب سے وظیفہ دلا کر ان کو یکسوئی کے ساتھ تخلیقی کام یعنی قران مجید کے حواشی پر امدہ کرنے کے لیے اقبال کو لکھا تو جواب میں سرراس مسعود کو اس وظیفہ کی منظوری اور قران مجید کے لکھنے پر انہیں اپنی امدگی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں ۔
" میری خواہش ہے کہ اعلی حضرت خود مجھے اپنی ریاست سے پینشن منظور کر دیں تاکہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ قران پر اپنی کتاب لکھ سکوں میں اپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک بے نظیر کتاب ہوگی اور ان کے نام اور شہرت کو باقاعدہ عوام بخشے گی یہ جدید اسلام کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہوگی اور میں شیخی نہیں بگار رہا ہوں جبکہ یہ کہتا ہوں کہ اج دنیاے اسلام میں میں ہی وہ واحد شخص ہوں جو اس کو کر سکتا ہوں"
( زندہ رود 550 )
بلا اخر راس مسعود نے مالی اعانت اور مستقل وظیفہ کی تجاویز علی حیدر عباسی مشیر المہام سیاسیہ کے توسط سے نواب صاحب کی خدمت میں پیش کیں جس کے نتائج جلد سامنے اگئے اور وہ فخر امتیاز جو ہندوستان کی کسی ریاست کو نصیب نہ ہو سکا سرراس مسعود کی تنہا کوششوں سے ریاست بھوپال کے حصے میں اگیا اقبال مسرت اور شادمانی سے سرراس مسعود کو لکھتے ہیں
" میں کس زبان سے اعلی حضرت کا شکریہ ادا کروں انہوں نے ایسے وقت میں میری دستگیری فرمائی ہے جبکہ میں چاروں طرف سے آلام و مصائب میں محصور تھا"
ا(قبال نامہ جلد 362 )
دوسری جگہ اعلی حضرت نواب صاحب کی لائف پینشن پر مسرت کا اظہار اور قران مجید کے نوٹ پر تشریح و ترجمانی کا عزم رکھتے ہوئے سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں
" اعلی حضرت نواب صاحب نے میری لائف پینشن 500 روپے ماہوار کر دی ہے انہوں نے میرے ساتھ عین وقت پر سلوک کیا اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قران شریف پر نوٹ لکھنے میں صرف کروں گا"
( مکتوبات اقبال 276 )
نواب حمید اللہ خان کی مالی آعانت سے مطمئن ہو کر علاج کا دوسرا کورس اور بھوپال کا تیسرا سفر 17 جولائی 1935 ءکیا اس مرتبہ وہ نواب صاحب کی خواہش کے مطابق سرکاری قیام گاہ شیش محل میں مقیم ہوئے شیش محل میں قیام کا مقصد یہ تھا کہ اقبال کو ہر طرح کی اسودگی اور راحت ملے اس کے علاوہ علاج و معالجہ کی بھی سہولت رہے سب سے بڑھ کر کہ نواب صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ اقبال فرصت سکون اور اسودگی کے بہترین لمحات میں قران مجید کے حواشی پر کام کر سکے لہذا کام کا اغاز باقاعدہ شروع ہوا کوئی ایک ماہ دس دن کی تگ و دو کے بعد ایک خاکہ تیار کیا گیا لاہور جانے کے بعد اس کو سر محمد شفیع کے حوالے کیا اس خاکے کو اخر میں پیش کیا جائے گا تاکہ قارئین کی معلومات میں اضافہ ہو
اقبال اپنے دل کی ارزو اور عزم کو اجاگر کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی کو قران مجید کے حواشی لکھنے کے لیے کتنے مضطرب تھے جیسے وہ رقم طراز ہیں
"انشاء اللہ موسم سرما میں وہ انگریزی کتاب لکھنا شروع کروں گا جس کا وعدہ میں اعلی حضرت نواب صاحب بھوپال سے کر رکھا ہے اس میں اپ کے مشہورے کی ضرورت ہے"
( اقبال نامہ جلد ایک 198 )
اسی طرح اقبال قران مجید کی حواشی کے مطابق ڈاکٹر محمد دین تاثیر صاحب کو بھی لکھتے ہیں جس میں نواب صاحب بھوپال کی ہمدردی اور خدمت کو سراتے ہوے رقمطراز ہیں
"اعلی حضرت نواب صاحب بھوپال نے درد مندی سے میرا علاج کرایا ہے اس کے علاوہ ان سرراس مسعودکو یہ معلوم ہوا کہ میں ایک کتاب مقدمۃ القران لکھنا چاہتا ہوں تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے مجھے انہوں نے تاحیات 500 روپے ماہوار لٹریری پنشن عطا فرمائی ہے اب ذرا صحت اچھی ہو جائے تو انشاءاللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کروں گا، اگے لکھتے ہیں
"پھر کچھ مدت کے لیے مقدمۃ القران کے لیے اپنے اپ کو وقف کروں گا باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی "
(انوار اقبال 208)
مقدمۃ القران بھوپال کی تاریخ کا زرین باب تھا جو اقبال کی بڑھتی ہوئی علالت کے سبب پورا نہ ہو سکا اور پھر ان کی یہ پیشنگوئی بھی پوری ہو گئی
" نامعلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری 2
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں