بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار
✒حافظ عبدالرحیم
قسط۔۔۔۔۔۔2
اقبال کی دوسری تخلیق کے سلسلے میں یہ عرض کر دیا گیا تھا کہ دوسرے علاج کے مرحلے میں وہ سرکاری قیام گاہ شیش محل میں مقیم تھے اس وقت شیش محل کی عالی شان اور پرشکوہ عمارت دوسری جانب شہر کی مشہور موتی مسجد تاج المساجد جہاں
اقبال نمازیں ادا کرتے اس کے ساتھ ساتھ جھیلوں تالابوں اور قدرت کے حسین و دلکش مناظر تاریخی عمارات جس کی صبحیں اور شامیں جادو جگاتی تھیں وہ اقبال کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں چنانچہ اقبال شیش محل کی پرسکون فضا میں علمی و فکری مسائل پر قلم اٹھایا وہ پانچ نظمیں تھیں جن میں شعری حسن سے زیادہ صداقت افرینی پر مبنی ہیں کیونکہ اقبال اپنی علمی و شہری کاوشوں سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور ان کے سیاسی مسائل اقوام مشرق کی ملوکیت افرنگ پر برتری کا جو خواب دیکھا تھا وہ ضرب کلیم یعنی اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف کی شکل میں پورا ہو گیا یہی وہ تخلیق ہے جس کے بارے میں اقبال نے لیڈی مسعود سے کہا تھا کہ
" انگریز نے اپنی سلطنت کی بنیاد مسلمانوں کی ہڈیوں پر رکھی ہے"
اقبال کا تیسرا تخلیقی شاہکار بھی شیش محل کے قیام پر وقوع پذیر ہوا اس کا مدعا یہ تھا کہ پنجاب میں فتنہ قادیانیت کا زور چل رہا تھا جس میں مسئلہ ختم نبوت اور دیگر مسائل درپیش تھے انہوں نے سید سلیمان ندوی کی رہبری میں رد قادیانیت پر دو مضامین ختم نبوت لکھ کر اس فتنہ کو دبا دیا لیکن ابھی یہ فتنہ کی اگ بجھ نہ پائی تھی کہ پنڈت نہرو کی اسلامی تعلیمات کے شعائر سے ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے کانگرس کے مفادات اور اپنے مخصوص خیالات و تصور سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی نہ ہو کر مذہبی فرقے اپس میں دست گریباں ہونے کے لیے ایک بیان اقبال کے مضامین کی تنقید میں شائع کیا چنانچہ اقبال نے ایک اور مضمون اسلام اور احمدیت کے عنوان سے شائع کر کے ان امور کی وضاحت کر دی یہ قیمتی مضامین سرزمین بھوپال کی دین تھی مقالات کی شکل میں شائع ہوئے
اقبال کا اخری شاہکار بھوپال کے چوتھے اور اخری سفر بجلی سے علاج کا تیسرا کورس مکمل کرنے کی غرض سے فروری 1936 کو بھوپال پہنچے اس مرتبہ نواب حمید اللہ خان کی دیرینہ خواہش کے مطابق شیش محل میں قیام کیا علاج کا کورس شروع ہو گیا بسا اوقات اکثر و بیشتر اسلام کی عظمت سلاطین اسلام کے کارنامہ و ہندوستان کے مسلمانوں کی ابتری انگریز تسلط کے خاتمے کی تدابیر ملت اسلامیہ اور تقسیم ملک کے مسائل پر گفتگو زیر بحث رہتے
اس قیام بھوپال کے شیش محل میں ایک تاریخی ساز واقعہ پیش ایا جو 3 اپریل 1936ء کی رات کو محو خواب وقوع پذیر ہوا جس سے ان کی مشہور مثنوی پس چہ باید کرد اقوام شرق معروض وجود میں ائی
اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب داستان کا انکشاف خود اقبال نے لاہور سے ایک خط کے ذریعے پروفیسر صلاح الدین الیاس برنی کو کیا ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں
" 3اپریل کی رات تین بجے کے قریب میں اس شب بھوپال میں تھا میں نے سرسید احمد خان علیہ الرحمۃ کو خواب میں دیکھا پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی فرمایا حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو میری انکھ اسی وقت کھل گئی اور عرض داشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئی انشاءاللہ ایک فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اقوام شرق نام کے ساتھ یہ عرضداشت داشت شائع ہو گی"
( اقبال نامہ ا ۔ 412 )
اسی سلسلے میں ایک دوسرا خط لاہور جانے کے بعد سرراس مسعود کو لکھتے ہیں
" 3 اپریل کی شب جب میں بھوپال میں تھا میں نے تمہارے دادا رحمت اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا مجھ سے فرمایا کہ اپنی علالت کے متعلق حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر میں اسی وقت بیدار ہو گیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے کل 60 شعر ہوئے لاہور آ کر خیال ہوا کہ ایک چھوٹی سی نظم ہے اگر کسی زیادہ بڑی مثنوی کا اخری حصہ ہو جائے تو خوب ہو الحمدللہ کہ یہ مثنوی بھی اب ختم ہو گئی مجھ کو اس مثنوی کا گمان بھی نہ تھا بہرحال اس کا نام ہوگا پس چہ باید کرداے اقوام شرق "
( اقبال نامہ جلد ایک 412 )
اس مثنوی کے تعلق سے ایک اور واقعے کا انکشاف ہوتا ہے جس کو وحید الدین فقیر نے روزگار فقیر میں درج کیا ہے اس واقعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سلسلے کی دو کڑیاں ہیں واقعہ یوں بیان کرتے ہیں
*پانچ سو ادمی*
ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم جس زمانے میں انارکلی کے دو منزلہ مکان میں رہتے تھے انہی دنوں ایک واقعہ پیش ایا, ہوا یوں ایک بار رات گئے سوتے سوتے علامہ مرحوم کی انکھ کھل گئی دیکھا بلکہ محسوس کیا کہ قلب پر شعر گوئی کی وہ خاص کیفیت طاری ہے پاس کاغذ تھا نہ پینسل چپ اٹھے لالٹین ہاتھ میں اٹھائی اور سیڑھیوں سے قدرے تیزی کے ساتھ اتر کر نچلی منزل میں پہنچے لالٹین ایک طرف رکھ دی کاغذ اور قلم سنبھالا اور جس قدر اس اشعار اس وقت موضوع ہوتے گئے انہیں قلم بن کرتے گئے یہاں تک کہ شعر کی یہ کیفیت اختتام کو پہنچی انہوں نے بالائی منزل پر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک سفید ریش طویل قامت درویش صفت بزرگ نظر ائے ڈاکٹر صاحب نے حسرت وہ استعجاب کے انداز میں دریافت کیا اپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں درویش نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے جلدی جلدی کہا پانچ سو ادمی پیدا کر۔۔ ،پانچ سو ادمی پیدا کر
یہ کہتے ہوئے وہ بازار کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھتے گئے حالانکہ اس طرف کوئی راستہ نہ تھا ڈاکٹر صاحب نے لالٹین اٹھائی اور زینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں گھپ اندھیرا تھا کار چلیے میں اپ کو راستہ دکھاؤں اور نیچے تک لے چلوں لیکن ان مرد بزرگ نے ڈاکٹر صاحب کی اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا وہ اپنا وہی فقرہ اسی جوش میں اور تاکید کے ساتھ دہراتے ہوئے نظر سے اوجھل ہو گئے ڈاکٹر صاحب جینے کی طرف سے سیڑھیاں طے کر کے بازار میں ائے اور دور تک دیکھا مگر بزرگ کا کہیں پتہ نہ تھا جیسے وہ ڈاکٹر صاحب سے اپنا یہ جملہ ہی کہنے کے لیے تشریف لائے تھے اور وہ جملہ کہہ کر غائب ہو گئے اسی اسنا میں ڈاکٹر صاحب کو رات میں گشت کرنے والا کانسٹیبل نظر ایا اس سے دریافت کیا کہ تم نے اس وضا خطا چال ڈھال اور حلیے کا کوئی ادمی تو نہیں دیکھا کانسٹیبل نفی میں جواب دیا ڈاکٹر صاحب مایوس ہو کر اپنے گھر لوٹ ائے اور پھر بستر پر سو گئے صبح کو جب بیدار ہوئے تو رات کا واقعہ ذہن میں بالکل تازہ تھا مگر پھر بھی خیال ایا کہ شاید انہوں نے خواب دیکھا ہے لیکن جب نچلی منزل میں ا کر رات لکھے ہوئے اشعار موجود پائے اور قریب میں لالٹین رکھنے کا نشان بھی ابھرا ہوا تھا تو ذہن اسی طرف منتقل ہوا کہ وہ خواب تھا یا بیداری بہرحال جو حالت بھی تھی اس کا ایک حصہ حقیقت بن چکا ہے
ڈاکٹر صاحب موسم گرما کی تعطیلات میں جب سیالکوٹ تشریف لائے تو اپنے والد بزرگار سے اس واقعے کا تذکرہ کیا شیخ اعجاز احمد اس وقت وہاں موجود تھے انکا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعہ سنانے اپنے والد ماجد سے دریافت کیا کہ پیدا کرنے سے اس دو اس درویش کی کیا مراد تھی تو انہوں نے فرمایا پانچ سو ادمی پیدا کرنے کی فرمائش پھر اس پر تاکید اس کا حقیقی مفہوم تو میں نہیں بتا سکتا مگر تم پانچ سو ادمی تیار کرنے والی پانچ سو
اشعار کی کتاب ہی لکھ دو
یہ واقعہ مثنوی کی بنیاد ہے اس لیے کہ ایک بار اپنے والد کے حیات یعنی 1930 سے قبل ان سے اس واقعے کے متعلق استفسار کیا تھا اور ان کے بقول تم پانچ سو ادمی تیار نہیں کر سکتے تو پانچ سو ادمی تیار کرنے والی پانچ سو اشعار کی کتاب ہی لکھ دو تو اقبال نے اس پر اس وقت عمل کیا جب وہ بھوپال کے شیش محل 1936 میں جو خواب دیکھا تھا اس خواب کی بدولت انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرضداشت پیش کرنے کے خاطر پانچ سو اشعار والی ایک بڑی مثنوی لکھی
راقم نے اس مثنوی کا جائزہ لیا جس میں حقیقتا 530 اشعار ہیں اس طرح اقبال کی یہ تمام تخلیقات کا سہرا بھوپال والئ بھوپال اور سرراس مسعود کے سر جاتا ہے اگر نواب صاحب اور سرراس مسعود اقبال کو بھوپال مدعو نہ کرتے تو یقینا اقبال کے یہ شاہکار قوم سے پوشیدہ رہ جاتے حقیقتا اقبال کا یہ تخلیقی شاہکار بھوپال کی تاریخ کا ایک درخشندہ باپ تھا جس نے اقبال جیسے افاقی شاعر کی زندہ دوستی اور عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک عہد افرین مثال قائم کی جو اج اور ہمیشہ زندہ رہے گی .....ختم شد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں