نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

نومبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے ۔ از قیصر الجعفری

 دیواروں  سے مل کر رونا  اچھا لگتا ہے  ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے  کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو  شبنم  کا  قطرہ  بھی  جن  کو  دریا  لگتا ہے  آنکھوں کو بھی لےڈوبا یہ دل کا پاگل پن  آتے  جاتے  جو  ملتا  ہے ، تم  سا  لگتا  ہے  اس بستی میں کون ہمارےآنسو پونچھے گا  جو  ملتا  ہے  اس  کا  دامن  بھیگا  لگتا  ہے  دنیا  بھر کی  یادیں  ہم  سے  ملنے  آتی ہیں  شام ڈھلے اس سونے گھر میں  میلہ لگتا ہے  کس کو  پتھر  ماروں  قیصرؔ کون  پرایا ہے  شیش  محل  میں اک اک چہرا اپنا  لگتا ہے 📌 قیصر الجعفری

میں عجب ہی مزاج رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں مزاحیہ غزل

 میں عجب ہی مزاج رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں زہر خندہ زبان. ہے میری یہی پہچان ہر جگہ میری اپنی مرضی سے تولتے ہیں لوگ جانے کیا کیا ہی بولتے ہیں لوگ تم مجھےدودھ کی جلی سمجھو تم مجھے برا یا بھلی سمجھو میری چپ کو نا سمجھو کمزوری طنز کا ہر جواب رکھتا ہوں کرچیاں جوڑنا میں جانتا ہوں اپنوں غیروں کو پہچانتا ہوں عام کو خاص کرنا آتا ہے خاص کو عام کرنا جانتا ہوں اپنی چپ میں بھی چیخ رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں

غزل از ڈاکٹرفرزانہ فرحت لندن خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں ہے

 ڈاکٹرفرزانہ فرحت لندن خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں ہے کیسا اُداس اک دلِ بیمار مجھ میں ہے عشقِ خدا ہے اور ہے عشقِ رسول بھی یعنی یہ ایک منبعِ انوار مجھ میں ہے یوں ڈوبتی رہیں مری چاہت کی کشتیاں رنج و الم کا درد کا منجدھار مجھ میں ہے لکھتی رہی ہوں میں جسے شعروں میں ڈھال کر وہ جذبہ ء جنوں ہےجو بیدار مجھ میں ہے یہ کہہ گیا ہے مجھ سے محبت کا ایک خواب وہ کون ہےجو اس طرح بیدار مجھ میں ہے شکوہ بھی کرنے دیتا نہیں مجھ کو جو ترا فرحت~ یہ کون تیرا طرفدار مجھ میں ہے

موت موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے- موت " اپنی دنیا" سے نکل کر "

 موت  موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے- موت " اپنی دنیا" سے نکل کر " دوسرے کی دنیا "  میں جانا ہے-  کیسا چونکا دینے والا ہے یہ واقعہ- مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے،  پھر بھی وہ نہیں چونکتا- حالانکہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتا رہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمہارے اوپر بھی گزرنے والا ہے-  وہ دن آنے والا ہے جب کہ کامل ہے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کر دے- موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے- موت کا حملہ سراسر یک طرفہ حملہ ہے-  یہ طاقت اور بےطاقتی کا مقابلہ ہے-  اس میں انسان کے بس میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کامل عجز کے ساتھ فریق ثانی کے فیصلہ پر راضی ہو جائے-  وہ یک طرفہ طور پر شکست کو قبول کرلے-  موت انسانی زندگی کے دو مرحلوں کے درمیان حد فاصل ہے-  موت آدمی کو موجودہ دنیا سے اگلی دنیا کی طرف لے جاتی ہے-  یہ اختیار سے بےاختیاری کی طرف سفر ہے-  یہ امتحان کے بعد اس کا انجام پانے کے دور میں داخل ہونا ہے-...

★درسِ قرآن ★ اور(پھر ایسا ھوا کہ ایک دن)

 ★درسِ قرآن ★ اور(پھر ایسا ھوا کہ ایک دن) بادشاہ نے (اپنے تمام درباریوِں کو جمع کر کے)  کہا: میں (خواب میں ) دیکھتا ھوں کہ سات گائیں ھیں موٹی تازی انھیں سات دبلی پتلی گائیں نگل رھی ھیں اور سات بالیں ھری ھیں اور سات دوسری سوکھیں ـ اے اھلِ دربار!  اگر تم خواب کا مطلب حل کر لیا کرتے ھو تو بتلاؤ میرے خواب کا حل کیا ھے؟  

بانگ درا کی نظم *نصیحت* کی تشریح و خلاصہ

 بانگ درا کی نظم *نصیحت* شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی کتاب "بانگِ درا" کی نظم "نصیحت" میں اقبالؒ نے ایک شخص کو نصیحت کی ہے۔ آپ نے اس شخص کو یہ کہا ہے کہ تُو روزے رکھتا ہے، لیکن نماز کا پابند نہیں ہے۔ تیری دل میں لندن کی ہوس ہے، لیکن لب پر حجاز کا ذکر ہے۔ تُو جھوٹ بھی مصلحت آمیز کہتا ہے، اور تیری تقریر میں سرکار کی مدحت ہے۔ تُو فکرِ روشن رکھتا ہے، لیکن تیری فکر میں آئینِ نیاز کی موجدگی ہے۔ تُو درِ حکام پر بھی جاتا ہے، اور تجھ کو مقامِ محمود کے لیے پالِسی کی ضرورت ہے۔ تُو چُھپا سکتا ہے پردۂ خدمتِ دیں میں، لیکن مسجد میں بھی تُو عید کے دن اثرِ وعظ سے ہوتی ہے۔ تیری طبیعت گداز ہے، اور دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں۔ تُو شعر بھی کہہ سکتا ہے، اور تیری مینائے سُخن میں شرابِ شیراز ہے۔ "عاقبت منزل ما وادی خاموشان است حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز" کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے یہ کہا ہے کہ ہماری زندگی کا اختتام قبرستان ہے۔ اس وقت آسمان میں ہنگامہ برپا ہو گا۔ یہاں علامہ اقبالؒ نے انسان کی زندگی کے اختتام اور قبرستان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ا...

بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار ✒حافظ عبدالرحیم قسط۔۔۔۔۔۔2

 بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار  ✒حافظ عبدالرحیم         قسط۔۔۔۔۔۔2      اقبال کی دوسری تخلیق کے سلسلے میں یہ عرض کر دیا گیا تھا کہ دوسرے علاج کے مرحلے میں وہ سرکاری قیام گاہ شیش محل میں مقیم تھے اس وقت شیش محل کی عالی شان اور پرشکوہ عمارت دوسری جانب شہر کی مشہور موتی مسجد تاج المساجد جہاں  اقبال نمازیں ادا کرتے اس کے ساتھ ساتھ جھیلوں تالابوں اور قدرت کے حسین و دلکش مناظر تاریخی عمارات جس کی صبحیں اور شامیں جادو جگاتی تھیں وہ اقبال کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں چنانچہ اقبال شیش محل کی پرسکون فضا میں علمی و فکری مسائل پر قلم اٹھایا وہ پانچ نظمیں تھیں جن میں شعری حسن سے زیادہ صداقت افرینی پر مبنی ہیں کیونکہ اقبال اپنی علمی و شہری کاوشوں سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور ان کے سیاسی مسائل اقوام مشرق کی ملوکیت افرنگ پر برتری کا جو خواب دیکھا تھا وہ ضرب کلیم یعنی اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف کی شکل میں پورا ہو گیا یہی وہ تخلیق ہے جس کے بارے میں اقبال نے لیڈی مسعود سے کہا تھا کہ          " انگریز نے اپنی سلطنت کی بنی...

نیند کی کمی سے ہونے والے پانچ نقصانات

 نیند مکمل نہ کرنے کے کئی جسمانی، ذہنی، اور جذباتی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ یہ نقصانات قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں۔ یہاں چند اہم نقصانات درج ہیں: 1. ذہنی صحت پر اثرات یادداشت اور توجہ میں کمی: نیند کی کمی سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، جس سے توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت برقرار رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن: نیند کی کمی ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ فیصلہ سازی میں مشکلات: نیند کی کمی سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ 2. جسمانی صحت پر اثرات کمزور مدافعتی نظام: نیند پوری نہ کرنے سے جسم بیماریوں سے لڑنے میں کمزور ہو جاتا ہے۔ دل کے امراض: نیند کی کمی بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی اور دیگر امراضِ قلب کا باعث بن سکتی ہے۔ وزن کا بڑھنا: نیند کی کمی سے ہارمونی تبدیلیاں ہوتی ہیں جو بھوک بڑھاتی ہیں، جس سے وزن بڑھ سکتا ہے۔ ذیابیطس کا خطرہ: نیند کی کمی انسولین کی حساسیت کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 3. جذباتی اور سماجی مسائل موڈ میں تبدیلی: نیند کی کمی غصہ، چڑچڑاپن، اور جذباتی عدم توازن پیدا کرتی ہے۔ سماجی ت...

بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار* ✍️حافظ عبدالرحیم

 *بھوپال میں اقبال کا تخلیقی شاہکار*  ✍️حافظ عبدالرحیم  "میں نہیں سمجھتا تھا کہ ہندوستان کا ایک والی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے نواب صاحب قوم و ملک کی ایک قابل فخر ہستی ہیں "                         اقبال نے مندرجہ بالا الفاظ نواب حمید اللہ خان والی بھوپال کی تعریف میں فرمائی تھی نواب صاحب ہندوستان میں تحریک ازادی اور تقسیم ہند کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے مسلم لیڈروں اور دانشوروں کو صلاح و مشہوروں سے نوازنے کے لیے ایک کانفرنس 10 مئ/ 1931ءکو بھوپال میں بلائی تھی اقبال کا یہ پہلا سفر سیاسی مقاصد کے سلسلے میں ہوا تھا جہاں اقبال نے نواب حمید اللہ خان سے راست ملاقات کر کے ان کی شخصیت علمی قابلیت اور سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر ہوئے تھے             قیام بھوپال کے زمانے میں اقبال کے تخلیقی شاہکار پر روشنی ڈالنے سے قبل بھوپال والئ بھوپال نواب حمید اللہ خان اور ان کے نامور شریک کار و ناظم تعلیمات صحت و امور ڈاکٹر سرراس مسعود جن کی قربت اور محبت نے اقبال کو بھوپال مدعو کیا تھا مختصر ...

اقبال اور فارسی شاعری* ✍️حافظ عبدالرحیم

 *        *اقبال اور فارسی شاعری*       ✍️حافظ عبدالرحیم  علامہ اقبال نے جس زمانے میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اس دور میں قدیم مکتب نظام تعلیم میں فارسی زبان لازمی جزتھی چنانچہ اقبال نے اسکول کے اوقات کے بعد بھی مساجد و مکاتب میں مختلف مولوی صاحبان کے علاوہ میر حسن دہلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہو کر فارسی زبان حاصل کی جیسے وہ خود فرماتے ہیں             "لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیوں کر اگئی جبکہ اسکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی ،انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لیے اسکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا "                (اقبال نامہ صفحہ 343  ) اس مناسبت سےا قبال کو ابتدا ہی سے فارسی زبان میں شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا انہوں نے کبھی کبھی جستہ جستہ فارسی زبان میں شعر کہے  اقبال نے پہلی مرتبہ ایک نظم کے دو بند جو فارسی میں لکھے ہیں وہ ان کے خاص کشمیری دوست منشی سراج الدین کے چار انگشتری...

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکتوبات نگاری

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکتوبات نگاری  ✒حافظ عبدالرحیم  قسط۔۔۔۔۔۔2... جیسے بادشاہ حبشہ کو "عظیم الحبشہ" دوسری جگہ "ملک الحبشہ" مقوقس کو "عظیم القبط" صاحب مصر شہنشاہ روم کو "عظیم الروم" صاحب روم اور شاہ ایران کو "عظیم الفارس" وغیرہ سے مخاطب فرمائے                                 چوتھی بات یہ ہے کہ "اما بعد" یعنی بعد ازاں بھی قدیم عرب کی خطابت میں بھی نہیں تھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابت کے ساتھ ساتھ خطوط میں بھی تحریر کروائے ہیں دنیاۓ تاریخ یا عربی میں یہ بات نہیں ملے گی یہ مختصر الفاظ عربی زبان کی شیریں بیانی کو ظاہر کرتے ہیں اس کے موجد بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں                             اخری بات یہ ہے کہ بادشاہ امرا اور حاکموں کے دور میں مہر کی بہت بڑی اہمیت ہوتی تھی جس تحریر یا خط کے اختتام پر مہر لگتی اس کو اہمیت دی جاتی تھی مہر کا رواج عربوں میں نہیں تھا جب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ...

بانگِ درا کی نظم ’’عقل و دِل‘‘ کا مختصر تجزیاتی مطالعہ*

 *بانگِ درا کی نظم ’’عقل و دِل‘‘ کا مختصر تجزیاتی مطالعہ* *ڈاکٹر وزیر آغا* عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثل خضرِ خجستہ پا ہوں میں ہوں مفسِّر کتابِ ہستی کی مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں بوند اک خون کی ہے تُو لیکن غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں! ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں عِلم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں شمع تُو محفلِ صداقت کی حُسن کی بزم کا دِیا ہوں میں تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں! اقبال نےاپنے کلام میں عقل اور عشق میں جو رشتہ دریافت کیا ہے اسے سمجھنے  کیلئے نظم ’’عقل و دل‘‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے-اس میں نہ صرف عقل اور دل کے امتیازی اوصاف پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان دونوں کے ربطِ باہم کو بھی اجا...