نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

طباعتی انقلاب (Printing Revolution)

طباعتی انقلاب (Printing Revolution)

  لفظ طباعت کے لغوی معنی''چھپائی'' کے ہوتے ہیں۔ اور انقلاب کے لغوی معنی تغیر یا تبدیلی کے ہوتے ہیں۔یعنی پرانے نظام کے جگہ نئے نظام کے نفاذ کو انقلاب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔طباعت ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی سانچے کا استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر متن اور تصاویر وغیرہ کو دوبارہ تیار کیا جاتا ہے۔ مکینیکل طریقے سے الفاظ اور تصاویر کو کاغذ پر ڈالنے کے عمل کو طباعت کہا جاتا ہے۔طباعت کا خاص مقصد کاغذ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تیزی کے ساتھ تبادلہ خیال کو اسان سے اسان تر بنانا ہے۔کاغذ کے ایجاد کے بعد لوگ اپنے خیالات کو ہاتھ سے لکھ کر ایک دوسرے تک پہنچانے کا کام انجام دیتے تھے۔ اس طرح تبادلہ خیال بہت ہی سست روی کا شکار رہا۔ کیونکہ ایک انسان اپنے ہاتھ کا استعمال کر کے بہت زیادہ نہیں لکھ سکتا تھا۔ اور ہاتھ سے لکھنے میں وقت بھی بہت زیادہ ضائع ہوتا تھا۔ بہت زیادہ لکھنے سے ہاتھ اور انگلیوں کی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح لوگوں کے ذہن میں چھپائی کا منصوبہ آیا۔چھپائی (طباعت) کے ذریعہ کم وقت میں اور کم محنت میں تیزی کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ دنیا کے گوشے گوشے تک بہ آسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مشین (پرنٹر) کا استعمال کر کے ہاتھ سے لکھی ہوئی الفاظ یا بنائے ہوئے تصاویر کو کم وقت میں اور کم محنت میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں چھپائی کی جا سکتی ہے۔اور ان مواد کو بہ آسانی لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس لیے طباعت کے میدان میں انسانوں نے خوب دلچسپی دکھائی۔ جس کے بد ولت انسانی زندگانی کے ترقیات کے ساتھ ساتھ طباعت میں بھی ترقی دیکھی جا سکتی ہے۔ 


چین میں طباعت:۔  شروع زمانے میں انسان اپنے احساسات، جذبات، خیالات و علوم کا تبادلہ زبانی طور پر کہانیوں کے ذریعہ یا قدرتی اشیاء (نمونوں) کا استعمال کر کے اشاروں کے ذریعہ کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد انسان جب فن تحریر سے واقف ہوا تو پتھروں، لکڑیوں اور چمڑوں وغیرہ پر لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد جب کاغذ کا ایجا د ہوا تو کاغذ پر لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ کاغذ کا ایجاد ملک چین کے ہان خاندان کے زمانے میں 105 ء میں ہوا تھا۔ دنیا میں سب سے پہلے طباعت کا آغاز براعظم ایشیا کے ملک چین سے ہوا۔ ملک چین نے ہی دنیا کو کاغذ اور طباعت جیسے تحائف سے مالا مال کیا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں ملک چین میں پتھر کی تختیوں پر لکھی گئی تحریروں سے کاغذ یا کپڑوں پر سیاہی کے رگڑ سے چھپائی (طباعت) کا آغاز ہوا۔ دنیا میں شروع زمانے سے دو طرح کے طباعت کا رواج پایا جاتا ہے۔  ایک woodblock
طباعت اور دوسرا Movable طباعت۔ ساتویں صدی عیسوی میں ملک چین کے تانگ خاندان کے ذریعہ woodblock طباعت کا رواج پورے مشرقی ایشیا میں پھیل گیا۔ جیسا کہ 1088 ء میں شین کو نے اپنے ڈریم پول کے مضامین میں اس کا ذکر کیا ہے۔ چینی کا ریگر Bisheng نے مٹی اور لکڑی کے ٹکڑروں کا استعمال کرتے ہوئے Movable طباعت کی ایجاد کی تھی جو چینی حروف کے لئے ترتیب دی گئی تھی۔ 1161 ء میں سونگ خاندان کے زمانے میں روپئے کے کوڈ کی چھپائی کے لئے Movable طباعت کا استعمال کیا گیا تھا۔ 1193 ء میں شائع شدہ ایک کتا ب میں تانبے کے Movable طباعت کے استعمال کے ہدایات شائع ہوئے تھے۔ 

جاپان میں طباعت:- Wood block  طباعت کے آثار جاپان میں اس وقت ملتے ہیں۔ جب وہاں کی رانی کو کن نے764ء میں بدھ مت کی کتاب Hyakumanto Darani کی اشاعت لکڑی کے بنے ہوئے 10 لاکھ چھوٹے چھوٹے مذہبی عمارتوں میں کی تھی۔ یہ جاپان کی مشہور دستاویزی Wood block  طباعت کی مثالیں ہیں۔ جو Emi Rebellion  کو کچلنے کے خوشی میں ہر مذہبی عبادت گاہوں میں تقسیم کی گئی تھی۔
12 ویں سے 13 ویں صدی عیسوی میں Kyoto اور Kamakura کہ بدھ مندروں میں Wood block  طباعت کے ذریعہ  بہت سے کتابوں کی طباعت اور اشاعت کی گئی تھی۔  
طباعت کا آغاز جاپان میں عیسائی مشزیوں نے 1590ء میں کیا تھا۔ جس کے ذریعے سے بہت سے  کتابوں کی طباعت ہوئی تھی۔ 1591ء میں پہلی بار طباعت کا عمل سامنے آیا۔ تاہم 1614ء میں عیسائیت پر پابندی کے بعد طباعت خانوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں Tokugawa Leyasu نے ملکی Wooden Movable طباعت کا آغاز کیا۔جس کے بعد بہت سے کتابوں کا طباعت ممکن ہو پایا۔ 

عرب دنیا میں طباعت:- عرب دنیا میں کاغذ کا تعارف آٹھویں صدی عیسوی میں ملک چین کے ذریعہ ہوا۔ ان کاغذات میں عرب دنیا کے لوگ لمبے عرصے تک اپنے تحاریر درج کرتے رہیں۔ عرب دنیا میں یہ سلسلہ Movable طباعت کے تعارف سے پہلے تک چلتا رہا۔
یوروپ نشاۃ ثانیہ کے بعد مسلمانوں سے پہلے غیر مسلموں نےMovable طباعت کا استعمال کرتے ہوئے عربی کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا۔ Movable طباعت کے ذریعہ سب سے پہلی عربی مذہبی کتاب صلواۃ السواعی بحسب طقس کنیۃ الاسکندریہ کی طباعت اٹلی کے Fano میں ہوئی تھی۔ فینو پرنٹنگ پریس کا قیام پوپ Julius II 
(1443-1513) نے کیا تھا۔ 1516ء میں اٹلی کے Geona میں دوسری کتاب Book of Psalms کی طباعت ہوئی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے عربی طباعت خانہ پورے یورپ میں پھیل گئے۔ نیدر لینڈ کے Leiden میں قائم کردہ ڈچ عالم Thomas Erpenius (1548-1624) کا طباعت خانہ بہت مشہور ثابت ہوا۔  جس میں بہت سارے کتابوں کی طباعت ہوئی تھی۔ اٹلی کے وینس میں سب سے پہلا قرآن 1530ء میں شائع ہوا۔ 1632ء میں 
البیضاوی، السیوطی اور الزمکشاری وغیرہ کے قرآن کے تبصرے وغیرہ کی طباعت ہوئی۔
سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس کا قیام تاخیر سے ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم حکمران کو یہ خوف تھا کہ کہیں اس کے ذریعہ غیر مسلم حضرات اسلامی کتابوں میں چھڑ چھاڑنہ کر دیں۔  اس کے تناظر میں 1485ء میں سلطان با یزید دوم اور 1515ء میں سلطان سلیم اول نے شاہی فرمان جاری کر کے کتابوں کی طباعت پر پابندی لگا دی تھی۔ بہرحال عیسائی اور یہودی اپنی مذہبی کتاب شائع کر سکتے تھے۔ ان پر یہ پابندی صرف اسلامی کتابوں کے طباعت کے سلسلے میں لگائی گئی تھی۔ 
سلطنت عثمانیہ میں سب سے پہلی عربی طباعت کا قیام قسطنطنیہ میں سلطان احمد سوم (1673-1736) کے دور حکمرانی میں ہینگری کا نو مسلم شخص احمد افندی چلبی اور اس کے بیٹا سعید اور ابراہیم متفرقہ ایک ساتھ مل کر کیا۔ اس پریس میں سب سے پہلی کتاب کی طباعت الزواہری کی لکھی ہوئی کتاب کی ترکی زبان میں ترجمہ ہوا۔ لبنان میں بیروت کے نزدیک ایک علاقہ میں عربی طباعت خانہ کا قیام عبداللہ بن زکریا ذاکر نے کیا۔ 1798ء میں نیپولین کے حملے کے بعد مصر میں بھی طباعت خانہ کا قیام کیا گیا۔

مغربی یوروپ میں طباعتی انقلاب:۔  یوروپی نشاۃ ثانیہ یا حیات نو کا ایک بہت بڑا کارنامہ طباعتی انقلاب ہے۔ مغربی یوروپ میں طباعتی انقلاب پندرہویں صدی عیسوی میں آیا۔ جرمنی کے پیشے سے سنار اور تاجر گھرانے سے تعلق رکھنے والے Johannes Gutenberg نے جدید طباعتی مشین کی ایجاد کر کے طباعت کے میدان میں ایک انقلاب بر پا کر دیا۔ اس کو اس کارنامے کے بنیاد پر Father of Printer and Printing Press کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے یہ کارنامہ 1454 ء میں چین اور کوریا کے طباعتی تکنیک سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے انجام دیا۔ اس نے طباعتی میدان میں اپنے تجربات کا آغاز 1436 ء سے کیا۔ Movable طباعت کے لئے اس نے پانی کے جگہ تیل پر مبنی سیاہی کا ایجاد کرتے ہوئے طباعت کو کافی تقویت پہنچائی۔ اس نے جرمنی کے Mainz شہر میں نئی طرز کی پرنٹنگ مشین کی ایجاد کی جو دھیرے دھیرے مغربی یوروپ کے دو سو شہروں تک پہنچ گئی۔ اس نے اس مشین کے ذریعہ سے لاطینی زبان میں 180 کی تعداد میں 1455 سے 1456 ء کے درمیان 42 سطروں پر مشتمل The Mazarine Bible جس کو Gutenberg Bible کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، کی اشاعت کی۔ اس کتاب کی انگریزی ترجمہ کی اشاعت 1475 ء سے شروع ہوئی۔ Mainz میں گٹن برگ کے پرنٹنگ کے ایجاد کے بعد طباعت کے مراکز دھیرے دھیرے مغربی یوروپ کے بہت سے ملکوں میں کھلنے شروع ہوگئے۔ طباعت میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی دیکھی گئی۔ یوروپ کے بڑے بڑے شہروں مثلاً کولون (1466)، روم (1467)،  وینس (1469)،  پیرس (1470)،  بوڈا(1473)، کراکو (1473) اور لندن(1477) میں طباعت کے مراکز قائم کئے گئے۔ نیدر لینڈ جیسے چھوٹے ملک کے 21 شہروں اور قصبوں میں طباعت کے مراکز قائم ہوئے اٹلی اور جرمنی میں سے ہر ایک میں 40 قصبوں میں طباعت کے مراکز قائم تھے۔ 1500 ء تک مغربی
یوروپ میں 1000 طباعت خانے قائم ہو چکے تھے جن کے ذریعہ 8 ملین کتابیں شائع ہو چکے تھے۔ 1550 ء کے دہائی کے دوران تک صرف جینوا میں تین سو سے زیادہ طباعت خانے قائم ہو چکے تھے۔  مقدار اور معیار کے اعتبار سے جرمنی اور اٹلی طباعت کے دو اہم مراکز تھے۔ 

ہندوستان میں طباعت:۔  ہندوستان میں سب سے پہلے طباعت کا آغاذ گوا میں بائبل پڑھا نے والے ایک عیسائی مشزی Francis Xavier کے کوششوں سے ہوا۔ اس نے پرتگال کے بادشاہ Joao III سے ہندوستان، جاپان اور ایتھوپیا کے لئے پرنٹنگ پریس کی مانگ کی۔ اس دوران ایتھوپیا کے شہنشاہ نے بھی پرنٹنگ پریس کی خواہش ظاہر کی۔ اس لئے 1556 ء میں پرتگال کے بادشاہ نے گوا اور Cape of Good Hope کے راستے ایتھوپیا کے لئے Father Gasper Caleza کے ہمراہ پرنٹنگ پریس روانہ کیا۔ لیکن اسی دوران کسی وجہ سے ایتھو پیا کے بادشاہ نے پرنٹنگ پریس قبول کرنے سے انکار کر دیا تو گوا کے مشزیوں نے گوا میں ہی پرنٹنگ پریس قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ جسے اس وقت کے گوا کے وائسرائے Francisco Barreto نے قبول کرتے ہوئے ہندوستان میں پہلا پرنٹنگ پریس 1556 ء میں گوا کے Jesuit St. Paul's College میں ایک عیسائی ماہر طباعت Joao de Bustamante کے ذریعہ کرایا۔ اس پریس کے ذریعہ سب سے پہلے Conclusiones Philosophicas اور Catecismo da Doutrina Christa وغیرہ نامی کتابیں شائع ہوئیں۔ یہاں سے سب سے پہلے Joao Gonsalves نے ہندوستانی زبان تامل میں پرنٹنگ ٹائپ کی شروعات کی۔جس کے ذریعہ 1554 ء میں Lisbon میں سب سے پہلی Francis Xavier's کی لکھی کتاب کا تامل ترجمہ شائع ہوا۔ اس کے بعد کونکن اور مراٹھی زبانوں میں کتابوں کی اشاعت ہوئی۔ 
1773 ء میں لارڈ وارن ہیسٹنگز جب ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے تو انہوں نے بنگلہ زبان میں گرامر پر کام کر نے کے لئے N.B.Halhead کو مدعو کیا اور Charles Wilkins کو بنگلہ ٹائپ کا ایک سیٹ تیار کرنے کا مشورہ دیا۔ Charles Wilkins نے بنگال کے تریبینی، ہگلی میں پیدا ہونے والے اورسیرامپور سے تعلق رکھنے والے پنچانن کرما کار جو پیشے سے سنار تھے سے بنگلہ حرف کی تراش و خراش میں مدد لی اور انہیں با قاعدہ ملازمت پر بحال کر کے بنگلہ ٹائپنگ کی ایجاد کرائی۔ پنچانن کرما کار کے اس کا رنامہ کے بنیاد پر ان کو بنگال کا گٹن برگ (Guttenberg of Bengal) کہا جاتا ہے۔ 1778 ء میں بنگلہ اور انگریزی زبان کے لیٹر ٹائپ پر مشتمل پہلی کتاب A grammar of Bengali Language منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کو Halhead Grammar بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہگلی پریس سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کمپنی کا پہلا طباعت خانہ تھا جسے ولکنسن نے قائم کیا تھا۔ 
29 جنوری 1780 ء سے ہر سنیچر کو نگریزی ہفتہ وار اخبار Hickey's Bengal Gazatte کو ایک آئرش تاجر James Augutus Hickey نے کلکتہ سے شائع کرنا شروع کیا۔ اس اخبار کو ہندوستان کا پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی والے ہکی کو ”پاپائے ہندوستانی پریس (Father of Indian Press) کہا کرتے تھے۔ اس اخبار کو چند وجوہات کے بنیاد پر 1782 ء میں ضبط کر لیا گیا تھا۔ 
بنگال کے سیرامپور مشزی کے مدد کے ذریعہ William Carry نے 1798 ء میں ڈچ حکومت کے ماتحتی میں William Ward اور J.Marshman کے ساتھ ملکر سیرامپور مشنری چھاپہ خانہ قائم کیا۔ ان تینوں کو Serampore Trio (تثلیث سیرامپور ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان تینوں نے پنچانن کر ما کار اور انکے داماد منوہر کے مدد کے ذریعہ دس سالوں میں 13 زبانوں میں لیٹر ٹائپ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ جن میں بنگلہ، دیونگری، فارسی اور عربی کی ٹائپنگ شامل تھی۔ اپریل 1818 ء اور مئی 1818 ء سے اس طباعت خانہ کے ذریعہ Marshman کی ادارت میں بالترتیب پہلا بنگلہ ماہنامہ ”دگ درشن“ اور پہلا ہفتہ وار بنگلہ اخبار ”سماچار درپن“ شائع ہونا شروع ہوا۔ اسطرح سے ہندوستان میں طباعت ترقی کرتا گیا۔ طباعتی میدان میں کلکتہ کے اپندر کشور رائے چودھری کے  قائم کردہ  طباعت  خانہ UN Roy & Sons کے خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جو 1913 ء میں قائم ہوا تھا۔

طباعتی انقلاب کے اثرات:۔  طباعتی انقلاب کے مندرجہ ذیل اثرات اُبھر کر سامنے آئے: 
۱)  طباعت نے کتابوں کی قیمتوں میں کمی کی۔ 
۲)  ہر کتاب کو نصب کرنے کے لئے جو وقت اور محنت درکار تھی وہ کم ہوگئی۔ 
۳)  ایک سے زیادہ کتاب آسانی کے ساتھ زیادہ مہارت سے نصب کی جانے لگی۔ 
۴)  دور دراز تک کے لوگوں تک کتابوں کی رسائی آسان ہوگئی۔ 
۵)  علوم کی اشاعت آسان ہوگئی۔ 
۶)  طباعت نے خیالات کی وسیع تر سیل کے امکانات پیدا کئے۔ 
۷)  کتابوں کی اشاعت نے بہترین علماء کے افکار کو عام کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی۔
۸)  طباعت نے مکالمے اور بحث کا ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ 
۹)  طباعت لوگوں کے اندر بیداری پیدا کرنے بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔ 
10)  طباعت کے ذریعہ دنیا کے دیگر اقوام ایک دوسرے کے تہذیب و ثقافت سے روشناس ہوئے۔ 
 ٭٭٭٭



ازقلم:۔  ابوالکلام انصاری(بانسبیڑیا)
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال، ہندوستان


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...