نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

طلبا پر سوشل میڈیا کے اثرات

 عنوان: طلبا پر سوشل میڈیا کے اثرات

 ازقلم:۔  ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال، ہندوستان

  آج کے دورمیں اسمارٹ فون سب کی ضرورت بن گیا ہے۔  entertainment،  communication اور information کیلئے اسمارٹ فون ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ ہمارے زندگی کا کوئی بھی شعبہ آج اس کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ سماج کے ہر طبقہ کے لئے یہ اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ اسی اسمارٹ فون کا ایک فیچر سوشل میڈیا ہے۔ جس نے سیل فون کو اسمارٹ فون بنانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے اور کرتا جارہا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ سماج کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہے، اسی تناظر میں ہم ذیل میں سماج کے ایک اہم طبقہ طلباء پر اسکے اثرات کا جائزہ لیں گے۔ طلباء سماج اور قوم و ملت کے مستقبل ہوتے ہیں۔ اسلئے اس اہم موضوع پر غور کرنا ہم سب کے لئے نہایت ضروری ہے۔ آئیے سوشل میڈیا کے اثرات سے پہلے مختصر طور پر سوشل میڈیا کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا:۔  سوشل میڈیا لوگوں کے درمیان رابطے کا وہ بہترین ذریعہ ہے جس کی مدد سے لوگ اپنی معلومات، خیالات اور تخلیقات کو آن لائن / مجازی نیٹ ورک (online/virtual networks) کے ذریعہ دوسروں تک شیئر (share) کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی ڈیجیٹل تکنیک (digital technology) ہے جو مختلف طرح کے websites اور applications کے ذریعہ لوگوں کے درمیان رابطے کے سہولیات فراہم کرتا ہے۔ 
"Social Media is a form of electronic communication (such as websites for social networking and microblogging) through which users create online communities to share informaton, ideas, personal messages and other content, such as videos".  (Merriam Webster)

سوشل میڈیا کی دریافت:۔  1997 ء میں پہلا سوشل میڈیا سائٹ Six Degrees کی ایجاد امریکہ کے Macroview کمپنی کے CEO اور بابائے سوشل میڈیا Andrew Weinreich نے نیویارک میں کیا تھا۔ 

ہندوستان میں سوشل میڈیا کا آغاز:۔  2005 ء میں Google کے Orkut سائٹ اور Email کے ذریعہ ہندوستان میں سوشل میڈیا کا آغاز ہوا۔ Bharatam ہندوستان کا تیار کردہ پہلا سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ہے جس کو 2021 ء میں Neeraj Singh Bisht   (Mister Singh) نے بنایا ہے۔ 

سوشل میڈیا کی خصوصیات:۔  سوشل میڈیا کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱ ) ویب اسپیس :۔  یہ اپنے استعمال کرنے والے کو web space فراہم کرتا ہے جس پر کوئی بھی مواد اپلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
۲) ویب ایڈریس:۔  یہ اپنے استعمال کرنے والے کو web address فراہم کرتا ہے۔ جو اسکی Identity(ID) کہلاتا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے مواد کو پوسٹ اور شیئر کرتا ہے۔ 
۳) پروفائل بنانا:۔  یہ اپنے استعمال کرنے والے کو اپنی ذاتی تفصیلات کی فراہمی کی بنیاد پر اپنا profile بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے دوسرے لوگوں سے بہ آسانی رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ 
۴) دوستوں سے رابطہ قائم کرنا:۔  یہ استعمال کرنے والوں کے درمیان آپس میں رابطہ قائم کرنے اور تبادلہ خیال و تبادلہ مواد میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 
۵) پوسٹ کا معیادی ہونا:-  اپنے کسی بھی پوسٹ کو بآسانی دیکھ سکنے کا موقع فراہم کرتا ہے چاہے وہ پوسٹ بہت دنوں یا سالوں پہلے ہی کیوں نہ اپلوڈ کیا گیا ہو۔ 
۶) ایپلیکیشنز کا انٹرنیٹ سے براہِ راست تعلق :۔  یہ اپنا کام انٹرنیٹ کی فراہمی کی بنیاد پر ہی سرانجام دیتا ہے۔ بغیر انٹرنیٹ کے یہ کام نہیں کرسکتا ہے۔ 
۷) صارف کا تیار کردہ مواد:۔  اسکے استعمال کرنے والے اپنے خیال، ڈیجیٹل فوٹو، ویڈیو وغیرہ کو دوسروں تک بآسانی بھیج سکتے ہیں اور ان کے ارسال کردہ فوٹو، ویڈیو، تحریر وغیرہ کو وصول کرسکتے ہیں۔ 
۸) تعمیر کمیونیٹی:۔ اس کے ذریعہ استعمال کرنے والوں کو اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ ایک community building کا موقع فراہم ہوتاہے۔ 
۹) ڈیٹا کی مستقلیت:۔  اس پر پوسٹ کیا گیا کوئی بھی انفارمیشن ہمیشہ کے لئے باقی رہ جاتا ہے۔ جب تک کہ اس کو  Delete نہ کیا جائے۔ 
۱۰) عالمی تعامل:۔  یہ تمام دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے میں معاون و مددگار ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصّہ کا رہنے والا دنیا کے کسی بھی دوسرے خطہ کے لوگوں کے ساتھ interact کر سکتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کے اقسام:۔  سوشل میڈیا کے اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
(i)  Social Networking site:-  WhatsApp, Facebook, Messanger, Instagram, Google+,Telegram, Twitter  etc.
(ii)  Image based sites:- Pinterest, Instagram, Snapchat ,Photobucket, Flicker  etc. 
(iii)  Streaming Platforms / Video Sharing:- Youtube, Vimeo  etc. 
(iv)  Discussion Platform:- Quora, Reddit  etc.
(v) Blogs & Community Platforms:- Tumblr, Medium, Huffington, Boing Boing, Twitter  etc. 
(vi)  Business Networks:- Linkedin, XING  etc.
(vii)  Collaborative Projects:- Mozilla  etc.
(viii)  Enterprise Social Networks:- Yammer, Socialcast  etc. 
(ix)  Forums:- Gaia Online, IGN Boards  etc. 
(x)  Product/Services Review:- Amazon, Flipkart, Meesho, Elance  etc.
(xi) Social Book Marking:- Delicious, Pinterest 
(xii)  Social Gaming:- Mafia Wars, World of war craft  etc.
(xiii)  Virtual Worlds:- Second Life, Twinity  etc. 

سوشل میڈیا کے مثبت اثرات:
  ۱)رابطہ کا بہترین ذریعہ:-  لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں بہت معاون و مددگار ہے۔ اسطرح طلبا اپنے مضامین سے جڑے لوگوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ 
۲)  مثبت تحریک:۔  یہ طلبا کے اندر مثبت تحریک پیدا کرنے میں کافی معاون و مددگار ہوتا ہے۔ کسی بھی بڑی شخصیت کے کارنامے بآسانی سوشل میڈیا پر دستیاب ہو جاتے ہیں جو طلبا کے اندر مثبت تحریک پیدا کرتے ہیں۔ 
۳) بیداری:۔  طلبا کے اندر بیداری لانے میں سوشل میڈیا بہت نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ ہر طرح کی معلومات کی فراہمی بآسانی ہو جاتی ہے۔ 
۴)  اظہار خیال کے مواقع فراہم کرنا:۔  طلبا اپنے خیالات، احساسات، جذبات، تخیلات، تخلیقات کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعہ کرتے ہیں جس کے ذریعہ ان کو دنیا کے کامیاب لوگوں سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ 
۵) ساری دنیا کو یکجا کرنا:۔  طلبا دنیا کے کسی بھی خطے کے استاد، کامیاب شخصیت، ہم عصر طلبا سے بآسانی رابطہ کر کے اپنی تعلیمی صلاحیت و قابلیت میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔ طلبا کے سامنے ساری دنیا ایک ہی جگہ اکٹھا ہو جاتی ہے۔ 
۶)  تحقیق میں کامیابی:۔  طلبا کو اپنے مضمون سے متعلق مزید جانکاری حاصل کر کے اور اس پر غور و تدبر کر کے اپنے اندر تحقیقی صلاحیت کو نکھارنے کا اور اپنی تحقیق میں کامیابی حاصل کرنے کا بڑا اچھا پلیٹ فارم مل جاتا ہے۔ 
۷)  ڈیجیٹل خواندگی:۔  یہ ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ میں کافی معاون ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے کے استاد سے دنیا کے کسی بھی خطے کا طالب علم اس کے ذر یعہ اپنی خواندگی کو تقویت پہنچاسکتا ہے۔ 
۸)  مقابلہ ذاتی امتحانوں میں کامیابی:۔  یہ گھر بیٹھے بڑے سے بڑے مقابلہ ذاتی امتحانات کی تیاری میں کافی معاون ثابت ہو رہا ہے۔ طلبا کو تحریری مواد، لیکچر اور ویڈیو بآسانی دستیاب ہو جا رہے ہیں۔ جس کی بدولت کامیاب ہونا آسان ہو گیا ہے۔ 
۹)  آن لائن تعلیم:۔  یہ آن لائن تعلیم میں کافی معاون ثابت ہو رہا ہے۔ Lockdown کے زمانے میں آن لائن تعلیم کی افادیت سے ہم سبھی واقفیت حاصل کر چکے ہیں۔ استاد اپنے گھر سے ہی اپنے طلبا کو درس دیتے رہے۔ 
۱۰)  علم و معلومات میں اضافہ کرنا:۔  یہ معلومات کے اضافہ کرنے میں کافی مددگار ہے۔ کسی بھی شعبے کی جانکاری ہو یا کسی بھی علاقے کی کوئی خبر ہو بآسانی گھر بیٹھے مل جارہی ہے۔ 

سوشل میڈیا کے منفی اثرات:  
۱)  نفسیاتی مسائل کا پیدا ہونا:۔  سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے طلبا کے اندر ذہنی تناؤ، احساس کمتری، اکیلا پن، پریشانی، غصّہ، الجھن، عدم توجہی، اکتسابی کمزوری، منفی سوچ و فکر، قوت حافظہ کی کمزوری وغیرہ جیسے مسائل بہت تیزی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں جو ان کے مستقبل کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ 
۲)  جسمانی مسائل سے دو چار ہونا:۔  سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے طلبا جسمانی طور پر کمزور ہوتے جارہے ہیں اور ان کے اندر موٹاپا، کھیل کود سے انحراف، بھوک کی کمی، نیند کی خرابی، بول چال میں فصاحت کی کمی اور جسم کے مختلف اعضاء کے مسائل جیسے انگلیوں اور نسوں کے افزائش میں مسائل، کندھا، گردن، ہاتھ، کلائی اور سر درد کے مسائل اور آنکھ کے مسائل وغیر ہ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ جو ان کی تعلیمی سر گرمیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ 
۳)  سماجی مسائل میں گرفتار ہونا:۔  سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال سے طلبا کئی طرح کے سماجی مسائل کا شکار ہوتے دیکھے جارہے ہیں۔ حقیقی دنیا سے دوری، فرضی دنیا سے انسیت، وقت کی ناقدری، بے حیائی و فحاشی، اخلاقی پستی، cyber crime اور غیر سماجی پن وغیرہ چند ایسے سماجی مسائل ہیں جن میں آج کے طلبا گرفتار ہوتے چلے جارہے ہیں جو خود ان کی اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہیں۔ 
۴) سکرین ایڈکشن کا شکار ہونا:۔  entertainment کی بنیاد پر طلبا screen sddiction کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور ان کا رزلٹ دن بہ دن خراب ہو تا جارہا ہے۔ 
۵)  وقت کی ناقدری:۔  طلباسوشل میڈیا میں پھنس کر وقت کی قدر کرنا بھول چکے ہیں۔ جو وقت کی قدر نہیں کرے گا وہ زندگی کے ہر موڑ پر نا کام و نا مراد ہوگا۔ 
۶)  مطالعہ سے دوری:۔  سوشل میڈیا پر بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے طلبا مطالعہ سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان کو وقت ہی نہیں مل پا رہا ہے کہ ہو کتب بینی، اخبار بینی وغیرہ سے استفادہ کر سکیں۔ حالانکہ اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کے لئے مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ 
۷)  ملک و ملت کے مسائل سے بے خبری:۔  آج کے طلبا سوشل میڈیا پر ایسے مصروف ہیں کہ ان کو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ملک و ملت کے مسائل سے واقف ہو سکیں اور کچھ مثبت اقدام اٹھا کر ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ 
۸) گمراہی کا شکار ہونا:۔  سوشل میڈیا کی غلط خبروں کے وجہ سے آج کے طلبا گمراہی کا راستہ اختیار کر کے اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں۔ 
۹)  خودکشی کرنا:۔  مندرجہ بالا مسائل سے دو چار ہونے کی بنیاد پر آج کے دور میں چند طلبا خودکشی بھی کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ نفسیاتی، جسمانی اور سماجی مسائل سے دو چار ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی گمراہی کے بنیاد پر ایسے غلط قدم اٹھا لیتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کی تدابیر:۔
۱)  خود احتسابی:۔  اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنی تخلیق پر غور کرنا ضروری ہے۔ اپنی زندگی کے مقاصد پر غور کرنا ضروری ہے۔ اپنے حال کے آئینے میں اپنے مستقبل کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اسطرح ہم اس کے برے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ 
۲) مقصد زندگی کو سامنے رکھ کر عمل کرنا:۔  زندگی میں اگر کوئی مقصد نہیں ہوگا تو ایسے ہی لغویات و فصولیات میں وقت برباد ہوتا رہے گا۔ اس لئے کامیاب زندگی کے لئے مقاصد کا تعین بہت ضروری ہے اور اس کے حصول کے لئے ساری محنتیں اور مشقتیں کرنی چاہیے اور بے کار کاموں سے منھ موڑ لینا چاہئے۔ 
۳)  وقت کی قدر:۔  اللہ نے جو وقت ہمیں سرمایہ کے طور پر عطا کیا ہے اس کا صحیح استعمال ہی ہمیں کامیاب کر سکتا ہے۔ اسکا بیجا استعمال سوشل میڈیا پر نہ ہو۔ اس بات کا خیال ہمیں رکھنا ہوگا۔
۴)  سوشل میڈیا apps کو اپنی موبائل سے ڈیلیٹ کرنا:۔  سوشل میڈیا کے زیادہ تر ایپس کو اپنے موبائل سے ڈیلیت کر دینا چاہئے۔ 
 ۵) ایپس کو browser میں کھولنا:۔  apps کو browser میں کھول کر اپنا کام کرنے میں تھوڑی سی پریشانی ہوتی ہے۔ موبائل میں apps براہ راست کھول کر کام کرنے میں آسانی تھی لیکن اب browser میں بار بار login کرنے میں پریشانی کے وجہ سے بار بار کھولنے میں دل اکتاہٹ ہوتی ہے۔اب بہت اشد ضرورت کے تحت ہی Facebook.com،  Youtube.com  وغیرہ کا استعمال لوگ کرتے ہیں۔ اس طرح apps کو براہ راست استعمال نہ کر کے اس کوbrowser میں کھول کر کام کیا جائے۔
۶)  سوشل میڈیا پر وقت گزاری میں کمی کرنا:۔  طلبا ء کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پرپہلے سے کم وقت صرف کرے۔ یعنی اگر پہلے پورے دن میں تین گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرتا تھا تو اب ڈیڑھ یا ایک گھنٹہ ہی صرف کرے۔
۷) موبائل کے سبھی notifications کو off کرنا:۔  اپنے ذہن کو صاف رکھنے کے لئے اور کسی بھی طرح کے ذہنی خلفشارسے اپنے کو دور رکھنے کے لئے موبائل کے سبھی notifications کو off کر دینا چاہئے۔ 
۸)  منفی اکاؤنٹ کو unfollow/mute کر دینا:۔  موبائل کے ایسے تمام اکاؤنٹ جس سے کسی بھی طرح کا فائدہ نہ ہو اس کو فوری طور پر ہٹا دینا چاہئے تا کہ اس میں ذرا سا بھی وقت ضائع نہ ہو۔ 
۹)  متبادل مصروفیات کا انتظام کرنا:۔  سوشل میڈیا پر جو وقت گزررہا تھا، وہ اب کسی دوسرے مفید کام میں صرف ہو۔ اس لئے مفید مصروفیات کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔ 
۱۰) لوگوں کے ساتھ شخصی تعلقات کو بڑھانا:۔  لوگوں کی خدمت کرنا، ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری جیسے کاموں میں اپنے آپ کو لگادینا چاہئے تا کہ اس سے اللہ بھی راضی ہو اور لوگوں کے ساتھ ہمارے رشتے بھی مضبوط ہو اور ان کی دعائیں بھی ہمیں ملتی رہیں۔

اسلامی نقطہ نظر سے سوشل میڈیا کا بہتر استعمال:
سوشل میڈیا کے جو خصوصیات و فوائد ہمارے سامنے موجود ہیں ان سے ہم بہت سارے نیک کام سر انجام دے سکتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱) لوگوں سے رشتوں کو مضبوط کرنا:۔  چونکہ سوشل میڈیا رابطوں کو بنانے میں بڑی آسانیاں لے کر آیا ہے، اس لئے ہم بآسانی اس کا استعمال اپنے رشتوں کو مضبوط بنانے میں کرسکتے ہیں اور ہم اپنے متعلقین کا خیال بھی بڑی آسانی سے رکھ سکتے ہیں۔ 
۲) حلال ذرائع سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا:۔  سوشل میڈیا کے ذریعہ حلال ذرائع سے ہم لوگوں کی خدمت کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جیسے آن لائن درس و تدریس، آن لائن تجارت وغیرہ۔ اسطرح آن لائن روزگار کر کے ہم غربت و افلاس سے نکل کر اپنی معاشی حالت میں سدھار لا سکتے ہیں۔ 
۳)  اسلامی معلومات کا تبادلہ:۔  اس کے ذریعہ سے ہم اسلامی تعلیمات کا تبادلہ بآسانی کر سکتے ہیں۔ اپنی معلومات کو دوسروں تک بھیج سکتے ہیں اور دوسروں کی معلومات کو بڑی آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ 
۴) ذہن سازی کرنا:۔  اپنی دینی معلومات و دینی بصارت کے ساتھ ساتھ جائز عصری علوم کے ذریعہ ہم دنیا کے دیگر اقوام کی ذہن سازی آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں تا کہ وہ مسلمانوں اور دین اسلام سے مانوس ہو سکیں۔ 
۵) بیداری لانا:۔  جائز کاموں کے لئے، نیکی پر گامزن کرنے کے لئے، اپنے مسائل کی شناخت اور انکے حل کے لئے لوگوں کے اندر بیداری لانے کا یہ ایک بہترین وسیلہ ہے۔ جس کے ذریعہ ہم پوری دنیا میں بیداری لاسکتے ہیں۔ 
۶) دعوت و تبلیغ کا کام کرنا:۔  مسلمانوں کے ہر طبقے (بچے، جوان، بوڑھے، مردو خواتین) پر اللہ نے دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کو فرض کیا ہے۔ اس سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم دنیا کے دور دراز کے علاقوں تک دعوت و تبلیغ کا کام بآسانی کر سکتے ہیں۔ 

اسطرح ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں بھلے ہی بہت ساری خامیاں ہو لیکن اگر اس کے مثبت پہلوؤں سے مستفید ہوتے ہوئے ہم اس کا بہتر استعمال کریں تو ہماری زندگی میں اور پوری دنیا میں انقلاب آسکتا ہے۔ اسلئے طلبا حضرات کو اس کے منفی اثرات سے پرہیز کرتے ہوئے اسکے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔ 
٭٭٭٭٭


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...