نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نئے ہندوستان کے لیے نئی تعلیم


  صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمونے 22 نومبر 2023 ء کو 2020 NEP,پر مبنی قومی تعلیمی مہم ”نئے ہندوستان کے لیے نئی تعلیم“ (New Education for New India) کا اغاز اپنے آبائی ریاست اڑیسہ کے برہماکماری ایشوریہ یونیورسٹی میں کیا۔ اس مہم کے اغراض و مقاصد خصوصیات و طریقہ کار کلی طور پر اخلاقی تعلیم پر مبنی ہے۔اس مہم کے متعلق تفصیلی معلومات جاننے سے قبل اخلاقی تعلیم سے واقفیت ضروری ہے تاکہ اس مہم کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔


اخلاقی تعلیم:- اخلاقی تعلیم افراد کو ان کے اعمال کے نتائج،  دوسروں سے ہمدردی اور غور و فکر اورذاتی سالمیت کی اہمیت کے بارے میں سکھاتی ہے۔یہ افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اخلاقی قدروں پر غور کریں، مناسب فیصلے کریں اور اپنے انتخاب و خواہشات کے نتائج کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ ایمانداری،سچائی،نرم دلی،ہمدردی،مہربانی، انصاف پسندی، حساسیت، تحریک، کردار سازی، صبر و تحمل،بردبازی، شفافیت اور رواداری وغیرہ پر اخلاقی تعلیمات مبنی ہوا کرتا ہے۔ اس میں خود غرضی‘ تنگ نظری، نفرت و عداوت،بغض وکینہ،حسد وغیرہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوا کرتا ہے۔ اخلاقی تعلیم مجموعی ترقی(Holistic Development) کو پروان چڑھانے، ذمہ دار شہری پیدا کرنے،انسانیت سے الفت و ہمدردی پیدا کرنے، جمہوریت کو فروغ دینے،مثبت تبدیلی لانے،منفی اثرات سے تحفظ برتنے وغیرہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوا ہے۔ اخلاقی تعلیم انفرادی ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعی ترقی کو بھی پسند کرتا ہے۔ سماج کو غربت و افلاس سے پاک کر کے سماجی بہتری لانا بھی اس کے نصاب میں شامل ہوا کرتا ہے۔

”نئے ہندوستان کے لیے نئی تعلیم“مہم کے خصوصیات:-
صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو کے ذریعہ آغاز کیے گئے اس نئی مہم کے خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
1- مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنا:- ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ مادری زبان میں ہماری تہذیب بھی پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔ مادری زبان اور تہذیب و تمدن کا ایک گہرا رشتہ ہوا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کے اندر ہندوستانی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے اور سماجی بیداری کے ساتھ ساتھ اخلاقی ذمہ داریوں کو ابھارنے کے خاطر صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمونے NEP,2020 کے پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مادری زبان میں تعلیم دینے پر زور دیا۔
2- اخلاقی تعلیم یا قدر پر مبنی تعلیم فراہم کرنا:- مندرجہ بالا اخلاقی تعلیم یا قدر پر مبنی تعلیم کے وضاحت سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اخلاقی تعلیم کے ذریعہ طلبہ کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرنا کتنا ضروری ہے۔کیونکہ یہی اخلاقی اقدار طلبہ کو ایک ذمہ دارشہری بننے،مثبت سماجی تبدیلی لانے اور ہمدردی، مساوات، بھائی چارگی، رواداری، انصاف پسندی، صبر و تحمل، ایمانداری، سچائی اور شفافیت جیسے صفات کو برتنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔یہی اخلاقی تعلیم طلبہ کو خود غرضی،تنگ نظری، نفرت و عداوت،بغض وکینہ، حسد، نفرت وغیرہ سے پاک کرے گی۔ جس سے سماج میں بہتری لایا جا سکتا ہے۔ سماج کی ترقی ممکن ہو سکے گی اور مجموعی ترقیHolistic Development  ممکن ہو پائے گا۔
3- طلبہ میں ذہنی ترقی کو فروغ دینا:- طلبہ کے اندر جس طرح جسمانی،اخلاقی اور نفسیاتی ترقی کو فروغ دینا ضروری ہے اسی طرح ذہنی ترقی کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔تعلیم کو آسان سے آسان تر بناتے ہوئے طلباء کو مادری زبان میں معیاری تعلیم اور بہترین تربیت فراہم کر کے ان کے ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ طلبہ کو مشاہدات، تفریحات، عملیات و تخلیقات کے مواقع فراہم کر کے ان کے ذہنی ترقی کو فروغ دی جائے گی۔
4- سماج کے تئی طلبہ کے شعور کو بلند کرنا:- چونکہ ہم انسانوں کا تعلق براہ راست سماج سے ہے۔ہم سماج کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے اس سے ہم آہنگی اور اس کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔سماج سے الگ تھلگ رہ کر ایک انسان کی زندگی بالکل اجیرن بن جائے گی۔ طلبا ہی اس انسانی نسل کے مستقل ہے اس لیے ان کے اندر سماج کے تئی شعور کو بلند کرنے کے لیے اس مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔
5- سماجی فلاح و بہبود کو فروغ دینا:- اس مہم کے ذریعہ یہ کوشش کی جائے گی کہ طلبا کے اندر وہ احساس پیدا ہو جن کو بروئے کار لا کر سماج کے فلاح وبہبود کو ممکن بنایا جا سکے۔
6- تہذیب و تمدن کے ارتقاء کو تقویت بخشنا:- اس مہم کے ذریعہ اپنی مخصوص تہذیب و تمدن کو ارتقا ء و پروان چڑھانے جیسی صلاحیتوں کو طلبا کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کے اندر اپنے تہذیب و تمدن سے محبت و الفت پیدا کی جائے گی اور اس کو دنیا کے سامنے عروج بخشنے میں کی کوشش کی جائے گی۔
7- والدین کی دیکھ بھال کرنے کے عادات کو دوام بخشنا:- آج کے اس ترقی یافتہ دور میں والدین کی خدمت سے اولاد ہاتھ دھوتے نظر آرہی ہے۔ جگہ جگہ بوڑھے لوگوں کے رہائش گاہ یعنیOld Age Home  کا قیام ہو رہا ہے۔جہاں والدین کو چھوڑ کر اولاد اپنی مصروفیات میں مشغول دیکھی جا رہی ہے جو کہ ایک مثالی سماج کے منافی عمل ہے۔ والدین کی خدمت کو ہر زمانے اور ہر مذہب میں سراہا گیا ہے۔جس میں آج کے دور میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کمی کو دور کرنا بھی اس مہم کے اغراض و مقاصد میں شامل ہیں۔
8- سماج کے کمزور طبقے کی بہتری کے لیے کوشش کرنا:- طلبہ کے اندر سماجی بیداری لاتے ہوئے سماج کے تئی ایک ذمہ دار شخصیت کے طور پر اپنی خدمات کو انجام دینے کے قابل بنانا تا کہ وہ سماج کے ہر طبقے بالخصوص کمزور طبقے کا خیال رکھ سکے اور سب کی فلاح کو بہبود کے لیے کوشش کریں۔
9- اجتماعی فروغ کو تقویت بخشنا:- اس مہم کے ذریعہ انفرادی یا خصوصی طبقے کی فروغ کے ساتھ ساتھ اجتماعی ترقیHolistic Development  کے لیے کوشش کی جائے گی تاکہ سماج کے ہر طبقے کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے۔
10- ذمہ دارانہ صلاحیتوں کو ابھارنا:- طلبہ کے اندر ذمہ دارانہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور نکھارنے کے لیے اس مہم کی شروعات کی گئی ہے تاکہ طلبہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر اپنے خاندان، سماج اور ملک و ملت کے لیے اپنے خدمات کو بہ حسن و بخوبی انجام دے سکے۔

”نئے ہندوستان کے لیے نئی تعلیم“ مہم کا طریقہ کار:-
اس مہم کا طریقہ کار مندرجہ ذیل ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مہم کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
1- قدر پر مبنی نصاب مہیا کرانا:- طلبہ کے اندر اخلاقی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے قدر پر مبنی مواد کو نصاب میں شامل کیا جائے گا جس کے ذریعہ طلبہ میں مثبت اخلاقی اقداریا اخلاق حسنہ کو پروان چڑھایا جائے گا اور اخلاق رذیلہ کی گندگیوں سے پاک کیا جائے گا۔
2- شعوری ارتقاء والے پروگرامات کا انعقاد کرانا:-شعوری ارتقا ء کو تقویت بخشنے والے بیداری پروگرام و سرگرمیوں کا انعقاد کر کے طلبہ کے اندر مجموعی ترقی (Holistic Development) کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔
3- مختلف طرح کے سماجی سرگرمیوں میں طلبا کے شرکت کو ممکن بنانا:- مختلف طرح کے تعلیمی سرگرمیوں میں طلبہ کو ملوث کیا جائے گا جس کے ذریعہ طلبہ کے اندر سماج سے زیادہ اختلاط کے مواقع فراہم ہو سکیں۔ جس کے وجہ کر طلبا میں سماجی بیداری آئے اور وہ سماج کے بہتری کے لیے کوشش کر سکیں۔
 4- اساتذہ کی تربیت کا اہتمام:- چونکہ طلبہ اتنا کچھ خود سے تونہیں کر سکتے اس لیے ان کو ایک ذمہ دار بہترین شہری بنانے کے لیے اساتذہ کو مزید تربیت سے آراستہ کرنا‘ بھی اس مہم کے طریقہ کار میں شامل ہے۔
اس نئی مہم سے یہ چاہا جا رہا ہے کہ طلبا کو اخلاق حسنہ سے مالا مال کیا جائے۔ اخلاق رذیلہ سے پاک کیا جائے۔ ان کو ایک ذمہ دار بہترین شہری بننے کے مواقع فراہم کی جائے۔ سماجی حالات میں سدھار لائی جائے۔ سب کے ساتھ برابری،  مساوات، رواداری،بھائی چارگی کا معاملہ کیا جائے۔ انسانیت نوازی یا بشریت نوازی کو فروغ دیا جائے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کی جائے۔ مندرجہ بالا یہ تمام باتیں سماج اور ملک و ملت کو بہتر سے بہترین بنانے میں بہت ہی معاون و مددگار ثابت ہوں گے اس لیے اس طرح کے مہم میں طلبا، اساتذہ،سماجی کارکنان اور سرپرست حضرات کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب کے لیے ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔

 ابوالکلام انصاری(بانسبیڑیا)
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال، ہندوستان

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...