ساغر نظامی کی نظم "حیدر علی" کا خلاصہ
از قلم: ڈاکٹر سید عارف مرشد
لکچرر، سیڑم فرسٹ گریڈ کالج، سیڑم
Abstract
Padma Bhushan awardee Sagar Nizami is considered among the leading poets of India. While he wrote poems, he has experimented a lot in prose as well. His real name was Samad Yar Khan and he used the pseudonym Sagar. He was born in 1905 in Aligarh. His father's name was Ahmad Yar Khan and mother's name was Soghari Begum. He had pledged allegiance to the chain of Nizami, accordingly he preferred to keep Sagar Nizami in his name. His father was employed in the health department. According to tradition, he received Arabic, Persian and Urdu English education at home. Sagar studied till class 9. Gandhiji's non-cooperation movement started during his student days. Due to this, he boycotted the school due to which his education remained incomplete.
پدم بھوشن ایوارڈیافتہ ساغر نظامی ہندوستان کے معروف شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جہاں انہوں نے نظمیں لکھیں وہیں نثر میں بھی انہوں نے کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا اصل نام صمد یار خان تھا اور ساغر تخلص کرتے تھے۔ یہ 1905ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام احمد یار خان تھا اور والدہ صغری بیگم تھیں۔ انہوں نے سلسلہ نظامی میں بیعت کی تھی اس مناسبت سے اپنے نام میں انہوں نے ساغر نظامی رکھنا پسند کیا۔ ان کے والد محکمہ صحت میں ملازم تھے۔ حسب روایت انہوں نے عربی، فارسی اور اردو انگریزی کی تعلیم خانگی طورپر حاصل کی۔ ساغر نے نہم جماعت تک تعلیم حاصل کی طالب علمی کے زمانے میں گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون شروع ہوئی۔ اس کے چلتے انہوں نے اسکول کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی تعلیم ادھوری رہے۔ بعد میں انہوں نے طبی تعلیم میں بھی داخلہ لیا۔ ان کے خاندان میں شعروشاعری کا بہت چرچا تھا۔ انہیں بچپن ہی سے شعر کہنے کا شوق رہا۔
ساغر نظامی کی نظم حیدر علی کا خلاصہ:
ساغر نظامی کی نظم حیدرعلی ایک انوکھی
نظم ہے جس کے تین حصے ہیں پہلا حصہ کو نظامی نے مورخ کی زبان سے کہلوایا ہے۔ جو کہ
ایک پابند نظم کا حصہ ہے جبکہ دوسرا اور تیسرا حصہ شاعر اور سیاح کے حوالے سے بات
کو پیش کیا گیا ہے جو آزاد نظم پر مشتمل ہے۔
پہلے حصہ میں مورخ نے نواب سراج
الدولہ کا ذکر کیاہے جو کہ بنگال کا آخری نواب تھا جس کا دور حکومت بہت کم رہا۔
1757ء کی شکست اور بے دردانہ قتل کے بعد برطانوی
ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور اقتدار شروع ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی سراج کا قتل کیا گیا
انگریزوں نے بہار و اڑیسہ کو غلام بنالیا اور یہ سمجھا کہ اب میسور کو بھی غلام
بنانا چاہئے اور جب تک میسور کو غلام نہیں بناتے اور میسور کے راجہ حیدر علی کو شکست
نہیں دیتے ہم ہندوستان پر حکومت نہیں کرسکتے۔
لیکن میسور کا راجہ حیدرعلی بہت
طاقتور تھا فرنگی یہ خوب جانتے تھے کہ جب
تک ہم میسور پر حکمرانی نہیں کرتے تب تک مشرق میں ہماری حکومت کا سورج نہیں نکل
سکتا۔ پونے کے ہرہٹے اور دکن کے بادشاہوں پر دام بچھائے گئے مگر حیدرعلی نے ہر ہر
دام کو توڑ دیا۔ او اولین فرد تھا جس کے یہاں بحری فوج بھی موجود تھی جس نے دریاوں
کے ساحل پر جہازوں کے دام بن دیئے تھے اور طوفانوں کے ہونٹ سی دئے تھے موجوں کو چپ
کرایا تھا۔ حیدر نے بحر یعنی سمندر کے جبڑوں میں لگام لگادی تھی۔
نظم کے اگلے حصہ میں شاعر کہتا ہے کہ
آئے زائرو مزار حیدر علی پر اپنے سر کو جھکاو کہ اس چادر گل میں ہو ہستی آرام فرما
ہے جو روح انسانیت کی عظمت کو بڑھارہی ہے۔ جلال و رفعت بڑھارہی ہے۔ جو ایک انسانیت
کیلئے مثال تھی آدرش تھی ہندو مسلم بھائی چارے پر۔ جو ایک وفا کا پیغام تھی۔ اس کی
مزار پر سر کو جھکاو اس نے انسانیت کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں۔ بلا تفریق مذہب و
ملت تمام مذاہب کے ماننے والوں کی خدمت کی ان کیلئے عبادتگاہوں کی تعمیر کروائی۔
اس نے جہاں مسجدوں کو سجایا وہیں مندروں کو بھی خوب دل کھول کر جاگیریں دیں۔ وہ
مرد میدان جنگ بھی تھا۔ صلح و امن کا پیغامبر بھی تھا۔ اتحاد انسان بھی تھا۔ وہ
مشرق کے زوال کے اسباب کو جانتا تھا۔ وطن کے بیماری کے جاننے والا طبیب بھی تھا
اور حکیم بھی جو اپنی فہم و حکمت سے مسائل کے حل نکال نے والا تھا۔ اس کے فہم و ادراک کے آگے انگریزوں کا دماغ کانپتا تھا۔ وہ دریائے نیل کے مزاج سے واقف تھا اس نے دریا
کےموج روں کے پیروں میں زنجیریں ڈال دی تھی۔
نظم
کے تیسرے حصے میں شاعر بزبان سیاح کہتا ہے کہ آئے زارئین یعنی حیدعلی کی مزار پر
حاضر ہونے والو یہاں پر اپنے سر کو جھکاو کیونکہ ان پھولوں کے نیچے ایک عظیم ہستی جو دریائے نیل کا آخری گوہر ہے۔ خلاصہ کلام یہ
کہ اس نظم میں نظامی نے حیدر علی کہ بہادری اور شجاوت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں