ولادت و اسماء گرامی:۔ ہمارے نبی محمدؐ کی ولادت (پیدائش) ملک عرب (موجودہ سعودی عرب)کے مغربی ریاست حجاز کے شہر مکہ معظمہ میں قمری سال کے مطابق پیر (سوموار) کے دن 12 ربیع الاول کوہوئی یعنی شمشی سال کے مطابق 570ء میں آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی۔ آپ ؐ کی پیدائش حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے یہاں حضرت آمنہ بنت وہب کے بطن سے ہوئی۔اس طرح حضرت عبداللہ آپ کے والد اور حضرت آمنہ آپ کے والدہ ہوئیں۔
آپ کے پیدائش پر آپؐکے دادا حضرت عبدالمطلب نے ساتویں دن عقیقہ کر کے آپ کا نام’محمد‘ رکھا۔محمد کے معنی ”بہت تعریف کیا گیا“ ہوتا ہے۔ اللہ نے بھی اسی نام کو کلمہ طیبہ میں شامل کیا ہے۔
آپ ؐکا ایک اور نام ’احمد‘ بھی ہے۔ احمد کا معنی”بہت تعریف اور حمد و ثنا کرنے والا“ ہوتا ہے۔آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں اس نام کا ذکر ہوا ہے۔
محمد اور احمدآپﷺکے ذاتی نام ہیں۔قرآن کریم میں حضرت محمدؐکا نام چار جگہ”محمد“ اور ایک جگہ”احمد“آیا ہے۔ ان کے علاوہ آپ کے ۹۹ صفاتی نام بھی ہے۔
رضاعت:۔ رضاعت کے لغوی معنی ”شیر خواری“دودھ پلانا ہوتا ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کا زمانہ دو سال کا ہوتا ہے۔آپؐکے والدہ کے ساتھ ساتھ عرب کے دستور کے مطابق اور بھی دیگر عورتوں نے آپؐ کو دودھ پلایا تھا آپؐ کو دودھ پلانے کا شرف جن عورتوں کو نصیب ہوا و ہ ان کی رضاعی مائیں کہلاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہے۔
رضائی مائیں:۔
سیدہ آمنہؓ: یہ آپؐ کی والدہ ماجدہ تھیں۔سب سے پہلے آپ نے دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا اور سات دن تک دودھ پلایا۔
ثوبیہؓ: یہ ابو لہب کی باندی تھیں۔ کچھ روز تک آپؐ کو دودھ پلائیں یہ آپؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓکو بھی دودھ پلائی تھی اس لیے حضرت حمزہؓ آپؐ کے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ آپؐ کے رضاعی بھائی بھی تھے آپؐ کی ولادت کی خوشی میں ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔
حلیمہ سعدیہؓ: عرب میں دستور تھا کہ شرفاء عرب اپنے شیر خوار بچوں کو ابتدا ء ہی سے دیہات میں بھیج دیتے تھے تاکہ و ہ دیہات کی صاف و شفاف آب و ہوا میں اور شہر کی مخلوط تہذیب و زبان سے دور خالص عربی تہذیب میں نشوونما پائیں اور پروان چڑھیں تاکہ زبان ان کی فصیح ہو اور خالص عربی تمدن و خصوصیات سے وہ آراستہ ہو۔ ایک مرتبہ خود نبی اکرم ؐنے اپنی زبان کی فصاحت کی وجہ یہی بتائی کہ آپؐ قریش میں پیدا ہوئے اور بنو سعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔
شرفاء عرب میں جاری اسی دستور کے مطابق بنوسعد کی عورتیں شیر خوار بچوں کو مکہ آکر تلاش کرتیں اور مخصوص اجرت و معاوضہ حاصل کرنے کی غرض سے انہیں لے کر جاتیں۔ جس سال نبی اکرم ؐکی ولادت باسعادت ہوئی تو حسب رواج بنو سعد کی خواتین مکہ آئیں جن میں حضرت حلیمہ سعد یہ بھی شامل تھیں۔ تمام خواتین نے آپؐ کے گھر کے خستہ حالی اور آپؐ کی یتیمی کو دیکھ کر انکار کر دیا تو حضرت حلیمہ سعدیہ نے اللہ کی برکت کی امید لگا کر اس یتیم کو لے لیا۔اس نو مولود کے مبارک ہونے کا احساس حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر حارث بن عبدالعزی کو اسی وقت سے ہونا شروع ہو گیا جس وقت انہوں نے ان کو گود لیا۔حلیمہ سعدیہ نے آپؐ کو دو سال کی عمر تک دودھ پلایا۔
رضاعی بہن و بھائی: ایک ہی خاتون کے بطن سے دودھ پینے والے تمام بچے آپس میں رضاعی بہن بھائی کہلاتے ہیں۔ آپؐ کے سگے بہن بھائی تو نہیں تھے البتہ پانچ رضاعی بھائی اور دو رضاعی بہنیں تھیں۔
آپؐ کے رضاعی بھائیوں کے نام:۔
۱) حضرت حمزہ ۲) حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد المخزوی ۳) مسروح
۴) ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب ۵) عبداللہ بن الحارث
آپ ؐکے رضاعی بہنوں کے نام:۔
۱) انیسہ بنت الحارث
۲) خذافہ بنت الحارث (یہ”الشیما“ کے نام سے مشہور تھی۔)
آپؐ کی پرورش: آپؐ کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب آپؐ کے ولادت سے چھ ماہ قبل ہی انتقال فرما چکے تھے۔یعنی آپؐ اپنے والد کے وفات کے وقت شکم مادر میں تھے۔ اس طرح آپؐ کی پیدائش یتیمی کی حالت میں ہوئی۔آپؐ پیدائشی طور پر یتیم تھے۔ پیدائش کے بعد سات دن تک آپؐ کی والدہ حضرت آمنہؓ نے آپؐ کو دودھ پلایا۔ پھر ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے کچھ دنوں تک دودھ
پلایا۔اس کے بعد عرب کے دستور کے مطابق بنو سعد کی حلیمہ سعدیہ آپؐ کو دودھ پلانے اور گاؤں دیہات کے فرحت بخش آب و ہوا میں پرورش کی خاطر اپنے ساتھ لے گئی۔دو سال کے عمر تک دودھ پلانے کے بعد حلیمہ سعدیہ آپؐ کو لے کر آمنہؓ کو واپس لوٹانے کے لیے آئی۔لیکن آپؐ کے جدائی سے بہت غمگین تھیں۔ ان کے غمگینی کو دیکھتے ہوئے اور آپؐ کی مزید بہتر صحت و پرورش کے خاطر آمنہؓ نے یہ کہہ کر آپؐ کو پھر حلیمہ سعدیہ کو دیا کہ”ابھی اپنے پاس ہی رکھیں۔ فرحت بخش آب و ہوا میں صحت اور اچھی ہو جائے گی۔“
جب آپؐ چار سال کے ہوئے اور ایک دن حلیمہ سعدیہ کے گھر کے باہر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ کھیل رہے تھے تو دو فرشتوں (حضرت جبرائیلؑ اور میکائیلؑ) نے آپؐ کے سینہ مبارک کو شق (چاک) کر کے قلب اطہر (دل) کو باہر نکالا اس میں سے ایک خون کے لوتھڑا کو کاٹ کر پھینک دیا اور دل کو آب ز م زم سے دھوا اور پھر واپس سینہ مبارک میں جوڑ دیا۔اس واقعہ سے حلیمہ سعدیہ ڈر گئیں اور محمدؐ کو واپس والدہ حضرت آمنہؓ کے پاس لے آئیں اور سارا ماجراسنائی۔ اس طرح چار سال کی عمر تک آپ ؐکی پرورش حلیمہ سعدیہ کے یہاں ہوئی۔
اس کے بعد ۲سال آپؐ اپنی والدہ ماجدہ کی پرورش میں رہے۔ جب آپؐ چھ سال کے ہوئے تو والدہ محترمہ حضرت آمنہؓ نے ان کو یثرب (مدینہ) اپنے عزیز و اقارب سے ملانے لے گئیں۔ والد محترم حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت بھی راستے میں کرائیں۔ ایک ماہ وہاں قیام فرما کر واپس لوٹ رہی تھی کہ ابواء کے مقام پر جو بدر کے قریب ہی واقع ہے، وہاں ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ انتقال فرما گئیں۔ ان کو وہیں دفن کیا گیا۔ اس طرح آپؐ چھ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت و پرورش سے بھی محروم ہو گئے۔
آپؐ کی خادمہ ام ایمن آپؐ کو لے کر دادا عبدالمطلب کے پاس آئیں۔دادا نے ان کی پرورش دو سال تک کی۔جب آپؐ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو دادا بھی اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اس کے بعد آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری آپؐ کے چچا ابو طالب نے چالیس سال تک اپنے پیارے بھتیجے کے کندھے سے کندھا ملا کر نبھائی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔جب آپؐ کی عمر اڑتالیس سال کی ہوئی تب 619 میں چچا ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا۔
شق صدر: کسی شئے کے کھل جانے کو شق کہتے ہیں۔ شق ہونے سے مراد اس چیز میں شگاف ڈالنا ہے۔ شق کے لغوی معنی پھٹا ہوا، شگاف پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اور صدر کے معنی سینہ ہوتا ہے۔ اس طرح شق
صدر کا معنی سینے کو کھولنا یا شگاف ڈالنا ہوا۔
آپ ؐکے شق صدر (سینہ چاک کرنے) کا واقعہ آپؐ کی زندگی میں چار مرتبہ پیش آیا۔
۱) پہلی بار شق صدر کا واقعہ زمانہ طفولیت میں پیش آیا جب آپؐ حلیمہ سعدیہ کی پرورش میں تھے اس وقت آپؐ کی عمر 4 سال کی تھی۔
۲) دوسری بار شق صدر کا واقعہ آپؐ کو 10سال کی عمر میں پیش آیا۔
۳) تیسری بار بعثت (نبوت) کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔
۴) چوتھی بارمعراج کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔
آپ ؐکے سینے مبارک کو چاک کیا جاتا تھا۔اس میں سے دل کو باہر نکال کر اس میں سے خراب خون کے لوتھڑے کو کاٹ کر باہر پھینک دیا جاتا تھا اور آب زم زم سے دھو کر پھر سینے سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ اس واقعہ کو شق صدر کہتے ہیں۔ یہ کام اللہ فرشتوں کے ذریعہ کراتا تھا۔آپ ؐکے شق صدر (سینے کو چاک کر کے قلب اطہر کے دھونے) کے مندرجہ ذیل مقاصد بتائے جاتے ہیں۔
۱) شیطانی وساوس سے حفاظت
۲) مقصد زندگی کے تئی یکسوئی
۳) علوم کی فراوانی
۴) لغویات سے پرہیز
قحط کے دوران بارش کی دعا: ابن عسا کرنے جلہمہ بن حرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا تو لوگ قحط سے دو چار تھے۔ سبھی بچے بوڑھے پریشانی میں مبتلا تھے۔ قریش نے ابو طالب سے کہا کہ قحط سے نجات حاصل کرنے کے لیے اور بارش کے نزول کے لیے چلئے دعا کی جائے۔ ابو طالب اپنے ساتھ ایک بچے (آپؐ) کولے کر باہر آئے اور خانہ کعبہ کے دیوار میں پیٹھ کو ٹیک دیکر بیٹھایا۔اس وقت آسمان پر ایک بادل کا ٹکڑا نہ تھا۔لیکن دیکھتے دیکھتے اِدھر اُدھرسے بادل کی آمد شروع ہو گئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ مکہ کی وادی میں سیلاب آگیا اور شہر و بیاباں شاداب ہو گئے۔یہ واقعہ آپؐ کے برکت کی وجہ کر ہوا تھا۔ بعد میں ابو طالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمدؐ کی مدح میں کہا تھا کہ”وہ خوبصورت ہیں۔ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔“
اولین سفر تجارت: آپؐ نے اپنے چچا ابو طالب اور دیگر افراد کے ساتھ شام و فلسطین ویمن و بحرین وغیرہ کے تجارتی سفر کیے تھے۔ اس سے آپؐ کو تجارتی اصول و ضوابط سیکھنے میں بڑی مدد ملی۔
بحیرا راہب سے ملاقات: جناب ابو طالب نے جب فلسطین کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا تو وہ آپؐ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے، اس وقت آپؐ کی عمر بارہ سال تھی۔بیت المقدس کے شمال دمشق کے قریب میں بصریٰ نامی مقام پر بحیرا راہب نے ان کی ضیافت کا انتظام کیا۔ جب اس نے آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کی مزید پزیرائی کی اور اس بات کا اطمینان کر لیا کہ نبوت کی نشانیاں آپؐ میں موجود ہیں۔ اس نے ابو طالب کو آپؐ کی شان و مرتبہ کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ آپؐ کو لے کر وطن واپس جائیں اور یہود سے خاص طور سے آپؐ کی حفاظت فرمائیں۔ ان کے مشورہ کے مطابق ابو طالب غالباً اپنا سفر ادھورا چھوڑ کر مکہ واپس چلے آئے۔
جنگ فجار میں شرکت: جب آپؐ کی عمر پندرہ سال کی تھی تو 585 میں جنگ فجار پیش آئی۔ یہ جنگ چار پانچ سال تک جاری رہا۔ یہ جنگ چار جنگوں کا نام ہے جو بالترتیب 585، 586، 587 اور 588 میں صرف ذوالحجہ کے مقدس مہینہ میں ہوئی۔ چونکہ قریش اس مہینہ میں جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے لہذا انہوں نے ان جنگوں کے بعد ''قد فجر نا'' (ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا) کا اعتراف کیا۔اس اعتراف کی بنا پرمذکورہ بالا سلسلہ جنگ ”حروب الفجار“ کے نام سے مشہور ہوا۔
اس جنگ کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ شاہ حیرہ نعمان بن منذر کے ایک تجارتی قافلہ کی سربراہی کے مسئلہ کو لے کر اس جنگ کا آغاز ہوا۔اس جنگ میں ایک طرف قریش اور ان کے ساتھ بنو کنانہ تھے اور دوسری طرف قیس عیلان تھے۔قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھے۔کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ قریش چونکہ اس جنگ میں برحق تھے اس لیے آپؐ نے اپنے خاندان کی مدافعت میں عملی حصہ لیا اور اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب کو تیر پکڑانے کا کام کیا۔
حلف الفضول (مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ):
’حلف‘کے معنی عہد و پیمان کے ہوتا ہے۔ 'فضول' فضل کا جمع ہے۔ جن لوگوں نے اس معاہدہ کو پہلی بار کیا تھا ان کے نام میں لفظ ”فضل“ مشترک تھا۔اس کے نسبت سے اس معاہدہ کا نام ”حلف الفضول“ پڑا۔ قبل اسلام مکہ میں اس نام سے دو معاہدے ہوئے تھے۔ان معاہدوں کومظلوموں کی حمایت کا معاہدہ
بھی کہا جاتا ہے۔
پہلا معاہدہ: حلف الفضول کا پہلا معاہدہ کم و بیش چار ہزارسال قبل ہوا تھا۔ قبیلہ جرہم سے تعلق رکھنے والے تین سرداروں فضل بن ودا عہ، فضل بن قضا عہ یا فضل بن فضالہ اور فضل بن حارث یا فضیل بن شراعہ نے حلف لے کر اقرار کیا تھا کہ اگر کسی کمزور و بے بس پر ظلم ہو تو ہم اپنے کنبوں سمیت مظلوم کی
حمایت اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک ظلم کرنے والا اس کا حق نہ دے دے۔ چونکہ یہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بہت پہلے ہوا تھا اس لیے اس میں آپکی شرکت نہیں ہوئی تھی۔
دوسرا معاہدہ: ذی القعدۃ سن 590 میں عبداللہ بن جرعان کے مکان پر قبیلہ قریش اور بنی قیس کے درمیان یہ معاہدہ ہوا جس میں بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو زہرہ،بنو تیم، بنو حارث بن فہر اور بنو اسد بن عبدالعزی نے شرکت کی تھی۔ اس معاہدہ کی قرارداد پیش کرنے میں آپؐ بھی پیش پیش تھے۔اس وقت آپؐ کی عمر 20 سال تھی۔یہ امن و امان کا معاہدہ تھا اس لیے آپؐ اس کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپؐ کے نزدیک اس معاہدے کی اتنی اہمیت تھی کہ زمانہ رسالت میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے کہ اس معاہدے کے مقابلے میں مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ لیتا اور اگر اب بھی شرکت کے لیے بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محمدؐ کو امن و امان کس قدر پسند تھا۔
اس معاہدہ کا پس منظر یہ ہے کہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک شخص عمرہ کرنے مکہ آیا اور حسب معمول اپنے ساتھ کچھ سامان فروخت کرنے کے لیے بھی لایا۔ عاص بن وائل سہمی نے اس شخص کو قیمت دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو زبیدی تاجر ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور وہاں اپنی مظلومی کی داستان چند طنزیہ اشعار میں با آواز بلند سنائی جسے سن کر بعض سربراہان قریش کو غیرت بھی آئی اور برا بھی لگا لہذا زبیر بن عبدالمطلب (آپؐ کے چچا) نے ایک نئی حلف الفضول کی تجویز پیش کی جس کی بھرپور تائید عبداللہ بن جرعان نے کی۔ تب اسی وقت عبداللہ بن جرعان کے مکان پر یہ معاہدہ طے پایا جس کے مندرجہ ذیل شرائط تھے۔
۱) ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے،خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں یہاں تک کہ ان کا حق ادا کیا جائے۔
۲) ملک میں ہر طرح کا امن و امان قائم کریں گے۔
۳) مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
۴) غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
۵) کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
آپؐ کے بچپن کے اوصاف،عادات و اطوار:
آپؐ بچپن ہی سے اعلیٰ اوصاف،عادات و اطوار کے مالک تھے۔ ان کے چند بہترین اوصاف، عادات و اطوار مندرجہ ذیل ہیں:۔
صداقت: صداقت کے معنی ’سچائی‘ہوتا ہے۔ آپؐ بچپن ہی سے سچ بولنے کے عادی تھے۔وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔
امانت داری: امانت داری کے معنی’ایمانداری‘اور’امانت کے پاسداری‘کے ہوتے ہیں۔ آپؐ بچپن ہی سے بہت امانت دار تھے۔وہ کبھی بھی امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے۔
مندرجہ بالا دونوں اوصاف کے بنا پر آپؐ کو لوگوں نے صادق اور امین جیسے القاب سے نواز رکھا تھا۔
راست بازی: راست بازی کے معنی بھی ایمانداری، سچائی اور دیانت داری کے ہوتے ہیں۔ آپؐ بچپن سے بہت راست باز تھے۔
اخلاق مند: آپؐ حسن اخلاق یعنی اچھے اخلاق کے عمدہ مثال تھے۔ اخلاق کے معنی عادت و خصلت ہوتا ہے۔ آپؐ بچپن ہی سے اچھی عادتوں اور خصلتوں کے مالک شخص تھے۔
حیا دار: آپؐ بچپن ہی سے بے حیائی یعنی بے شرمی اور بے پردگی سے پرہیز کرتے تھے۔ آپؐ حیا کو پسند فرماتے تھے۔
بدگوئی اور فحش بیانی سے پرہیز: آپؐ بچپن ہی سے اپنی زبان کے صحیح استعمال سے واقف تھے۔وہ کبھی بھی غلط بات نہیں بولتے تھے۔بیکار کی بات نہیں کرتے تھے۔بے حیائی کی باتیں نہیں کرتے تھے۔
لہو و لعب سے پرہیز: آپؐ بچپن ہی سے کھیل تماشا، ہنسی مزاق،سیر و تفریح وغیرہ سے پرہیز کرتے تھے۔ آپؐ بچپن ہی سے ایک اعلیٰ ظرف شخص تھے جو زندگی کے حقائق سے واقف تھے اور ہمیشہ زندگی کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی اپنے اعمال انجام دیتے رہے۔
فرمابردار: آپؐ بچپن ہی سے فرمابردار بھی تھے۔اپنے بڑوں کی فرمابرداری کیا کرتے تھے۔
بڑوں کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے۔
مندرجہ بالا اوصاف، عادات و اطوار سے ہم سب کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ والدین، سرپرست، اساتذہ و قائدین خود ان اوصاف، عادات و اطوار کے حامل بنتے ہوئے اپنے ماتحتوں کے اندر آپؐ کے ان اعلیٰ خصلتوں کو پیدا کریں تاکہ امت کے افراد اپنے مستقبل کو تابناک بناتے ہوئے ملک و ملت کا نام روشن کر سکیں اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کر سکیں۔٭٭٭
ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال ، ہندوستان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں