نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★خواہ مخواہ ★( طنزومزاح) * خدانخواستہ

 ★خواہ مخواہ ★( طنزومزاح)  

* خدانخواستہ * 

Abstract

What do we mean by Cholha Handi, we had never even set foot in the kitchen before - many men are fond of cooking - many of our friends used to cook good things with their own hands, but this In the process, we were completely blind - we never had this passion and never had the desire to cook ourselves, but now we were forced to burn our eyes from the smoke in the kitchen and burn our mouths in front of the stove - our cook who cooks It was more like our teacher first taught us how to knead the dough - don't ask how confusing it was - when the wet dough would stick in both hands - after learning how to knead the dough, remember the lesson on making pies. It was done and then the teaching of baking bread started

ہم کو بھلا چولہا ہانڈی سے کیا مطلب، اب سے پہلے کبھی باورچی خانے کا رخ بھی نہ کیا تھا ـ بہت سے مردوں کو کھانا پکانے کا شوق ہوتا ہے ـ خود ہمارے بہت سے  دوست اپنے ہاتھوں سے اچھی اچھی چیزیں پکا لیا کرتے تھے مگر اس سلسلہ میں ہم بالکل کورے تھے ـ نہ کبھی یہ شوق ہوا اور نہ اب تک افتاد پڑی تھی کہ خود کھانا پکاتے مگر اب ہم مجبور تھے کہ باورچی خانے میں دھوئیں سے آنکھیں پھوڑیں اور چولھے کے سامنے اپنا منہ جھلسایا کریں ـ ہمارے باورچی نے جو باورچی ہونے سے زیادہ ہمارا گویا استاد تھا ہم کو سب سے پہلے آٹا گوندھنا سکھایا ـ کچھ نہ پوچھیے کہ کس قدر الجھن ہوتی تھی ـ جس وقت گیلا آٹا دونوں ہاتھوں میں لتھڑ کر رہ جاتا تھا ـ آٹا گوندھنے کی تعلیم کے بعد پیڑے بنانے کا سبق یاد کرایا گیا اور پھر روٹی پکانے کی تعلیم دی جانے لگی ـ اللہ محفوظ رکھے، ہمارے خیال میں دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام یہی روٹی پکانا ہے ـ شروع شروع میں تو چپاتیاں توے پر عجیب عجیب نقشے بنایا کرتی تھیں ـ کوئی چپاتی ہوتی تھی بالکل سیلون کے نقشے کی ـ کوئی چپاتی ادھر سے ادھر پھٹ کر آسٹریلیا کا نقشہ بن جایا کرتی تھی ـ کوئی چپاتی آدھی ہاتھ میں چپک کر رہ جاتی تھی اور آدھی چولھے میں، توا بالکل صاف ـ خیر یہ تو نومشقی تھی مگر توے کے اوپر چپاتی ڈال کر پھر اس کو پلٹنا بس قیامت کا سامنا ہوتا تھا ـ کبھی انگلیاں توے سے چپک گئیں کبھی روٹی جل کر رہ گئی ـ سچ پوچھئیے تو ہم عاجز آچکے تھے اس زندگی سے ـ بیگم سے اگر کبھی اس مصیبت کا ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہہ دیا کرتی تھیں کہ "ذرا سے گھریلو کاموں میں گھبرا گئے اپنے آپ پڑ جائے گی عادت رفتہ رفتہ ـ" 

(یہ حال ہمارا ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ہم سمندری سفر میں طوفان میں بہہ کر ایک ایسے جزیرے پر پہنچ گئے جہاں صرف عورتوں کا راج تھا ـ)


(شوکت تھانوی ـ کتاب ـ خدا نخواستہ) 

.......................................................................

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period