نظم بہار کی ایک دوپہر کا
خلاسہ
Abstract
Ehsan-ul-Haq was born in a poor family in Muzaffarnagar, Kandhala district of Uttar Pradesh in 1914. He was known as Ehsan Danish in literary circles. Father's name was Qazi Danish Ali, who was a dervish manish and elevated
Radar was human. Mother Majda was a woman who fasted and prayed and was very honorable. He was brought up by his maternal grandfather, Abu Ali Shah, who was a poor soldier. After Jad Amjad's death, father brought him to Baghpat. He entrusted Hafiz Muhammad Mustafa to equip him with basic education and perform Bismillah. After learning the method of prayer and fasting, he also read some Persian books from them and then he was admitted to the Ta'ahili school to learn about contemporary sciences and arts. His father's ambitions for his education were very high but poverty did not support him. Due to the irony of fate, Charar could not teach beyond the fourth grade. From that time they started saying poetry. He moved to Lahore at the age of 15 and worked as a laborer, mason, gardener, watchman and peon. He studied in his spare time and tried to adapt the experiences and imaginations gained from poverty and labor into poetry. Gradually, when the poetic taste and passion began to exceed the limits, Tajur started to reform poetry from the pockets and then soon after, he established his own personal library under the name of "Maktaba Danesh".
احسان الحق 1914ء میں اترپردیش کے کاندھلہ ضلع مظفر نگر
میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے شہرت
پائی۔ والد کا نام قاضی دانش علی تھا جو کہ ایک درویش منش اور بلند ک
ردار انسان
تھے۔ والدہ ماجدہ پابند صوم و صلاۃ اور
نہایت باغیرت خاتون تھیں۔ ان کی پرورش و پرداخت نانا ابوعلی شاہ کے یہاں ہوئی جو
ایک غریب سپاہی تھے۔ جد امجد کے انتقال کے بعد والد اپنے ساتھ باغپت لے آئے۔
ابتدائی تعلیم سے آراستہ کرنے اور رسم بسملہ کے لیے انہوں نے حافظ محمد مصطفیٰ کے
سپرد کردیا۔ طریقہ نماز روزہ سیکھنے کے بعد فارسی کی چند کتابیں بھی انہی سے پڑھیں
اور پھر عصری علوم و فنون سے آگہی کے لیے تحصیلی اسکول میں داخل کرایاگیا۔ ان کی تعلیم کے سلسلے میں ان کے والد کے عزائم
تو بہت بلند تھے لیکن غریبی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ قسمت کی ستم ظریفی کی وجہ سے
چہار جماعت سے آگے نہ پڑھا سکے۔ اسی زمانے
سے شعر کہنے لگے۔ پندرہ سال کی عمر میں لاہور چلے گئے اور مزدوری، معماری،
باغبانی، چوکیداری اور چپراسی جیسی ملازمتوں کے فرائض انجام دیے۔ فرصت کے اوقات میں مطالعہ کرتے اور غربت و
مزدوری سے حاصل ہونے والے تجربات و تخیلات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے
رہے۔ رفتہ رفتہ شعری ذوق و شوق جب حد جنوں سے تجاوز کرنے لگا تو تاجور جیب آبادی
سے اصلاح شعروسخن شروع کردی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے "مکتبہ دانش" کے نام سے اپنا ایک
ذاتی کتب خانہ قائم کرلیا۔
احسان
دانش شعری سرمائے میں زیادہ تر نظمیں ملتی ہیں۔ انہوں نے نظموں کے زریعہ ایک بہت
بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔ انہوں نے قارئین و سامعین کو ایک مظلوم طبقہ کی حالت زار
کا احساس دلایا اور طبقاتی بیداری پیدا کی ۔ غربت و امارت کی کامیاب مصوری کے
باوجود ان کی شاعری سطحی رہتی ہے۔ گہرائی، پیچدگی اور شدت جذبات جو اعلیٰ شاعری کی
خصوصیات ہیں، ان کی نظموں میں نہیں ملتی۔ اردو کے بلند پایہ شاعروں کے اثرات بھی ان کے
یہاں ناپید ہیں۔ وہ کسی شاعر سے ذہنی مناسبت پیدا نہیں کرسکے۔ جابجا وہ انقلاب کا
ذکر کرتے ہیں مگر ان کے ذہن میں انقلاب کا کوئی واضح تصور موجود ہیں۔ انہوں نے
رومانی نظمیں بھی کہیں جو جاذب نظر ہیں کیوں کہ وہ شعری آداب کا خیال رکھتے ہیں۔
صاف ستھری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ تشبیہ و استعارہ سے حسب ضرورت کام لیتے ہیں۔
"گرمی کی دوپہر، نو عروس بیوہ، مزدور کی لاش اور مزدور کا مہمان " ان کی
مشہور اور بہترین نظموں میں سے ہیں۔
نظم بہار کی دوپہر میں شاعر نے بہار کے موسم میں جنگل
میں ہونے والی کیفیات کو بتانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظر میں منظر نگاری کا دخل بہت
زیادہ ہے۔ جس طرح علامہ اقبال کی پہاڑ اور گلہری، ایک مکھی اور مکڑی وغیرہ میں
منظر کشی کی ہی اسی طرح احسان دانش نے بھی اس نظم میں منظر کشی سے کام لیا ہے۔
پہلے شعر میں کہتے ہیں کہ ہوائیں بے چین ہیں اور ہلکے
ہلکے بادل چھاگئے ہیں اور جنگل کی کمسن دوشیزائیں بھیڑیں چرا رہیں۔ اسی طرح دوسرے
شعر میں کہتے ہیں کہ چنے کے کھیت میں کچھ لڑکیاں گانے گارہی ہیں پھول چن رہی ہیں
اور کچھ کھا بھی رہی ہیں۔ تیسرے شعر میں ایک بوڑھا کسان جو اپنی گاڑی پہ جارہاہے
اس کی نظریں اپنے کھیتوں کی طرف ہیں بیل گاڑی کے راستے پر چلنے کی وجہ سے اس کا سر
ہل رہاہے تو ایسا لگ رہاہے جیسے کہ وہ اپنے کھیتوں کو دیکھ کر خوش ہوکر سر
ہلارہاہے۔ اگلے شعر میں کہتے ہیں کہ اس کے قدموں کے نیچے جو سوکھی گھاس اور سوکھے
پودے آرہے ہیں اس کی چرمرانے کی آواز جیسے خوشی کے ماحول میں نغمہ جیسے معلوم
ہورہی ہے۔ اگلے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بادلوں کے درمیان سورج ایسے معلوم ہورہاہے
جیسےکہ وہ سمندر میں کشتی چلارہاہے اور کووں کا بول ناکانوں کو برا معلوم ہوتاہے
لیکن یہ بہار کو وقت ہے ایسے میں کووں کا بولنا بھی کانوں کو لطف دے رہاہے۔ گھیتوں
میں بادلوں کے درمیان سے ہلکی ہلکی روشنی چمک رہی ہے اور سرسبز جھاڑیوں میں چرند
پرند گارہی ہیں اور ناچ رہی ہیں۔ اگلے شعر
میں کہتے ہیں کہ سورج سرپر ہے لیکن بادل چھتری کے مانند سایہ کئے ہوئے ہیں اور
ٹھنڈی ہواوں میں بھی ایک گرمی کی لہر محسوس ہورہی ہے۔ اگلے شعر میں کہتے ہیں کہ زندگی کے پھول کھل رہے ہیں اور ایسا معلوم
ہورہا ہے کہ زندگی کے اسرار کھل رہے ہیں یعنی معلوم ہورہاہے کہ زندگی کیسی ہے کتنی
خوبصورت ہے۔
فانی نے کہا تھا کہ
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
لیکن احسان اپنے شعر میں کہتے ہیں
کہ زندگی کے اسرار ورموز کھل رہے ہیں۔ اخر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ بہار کا موسم گویا میرے
حافظے میں خاص جلوے دکھارہاہے اور میں ایسا کھوگیا ہوں کہ خود کو پارہاہوں۔ خلاصہ کلام کہ یہ اس نظم کے ذریعہ احسان اس نظم
کے ذریعہ زندگی کی شادابیوں اور خوشیوں کو بیان کررہے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں