نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا کی تشریح

  تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا کی تشریح ولی کی غزل   تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا تشریح و وضاحت: اس شعر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں میر کا یہ شعر فوراً رقص کرنے لگتا ہے:  ہستی اپنی حباب کی سی ہے            یہ نمائش سراب کی سی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ولی اور میر دونوں ہی شعرأ کی غزلوں کے مطلعے کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔ ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہو۔ شاید میر نے ولی  کے مذکورہ شعر سے متاثر ہو کر اپنی غزل کے مطلعے میں ولی ہی کی طرح تشبیہ کا استعمال کیا ہو، جس کا مقصد کچھ اور نہیں بل کہ اپنی استادی اور فنی مہارت پیش کرنے کا جذبہ رہا ہو۔ زیرِ بحث  شعر  میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو بدخشاں کے لعل سے تشبیہ دی ہے۔ اس کے دو پہلو ممکن ہیں۔ اول: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں کی مانند سرخ ہیں۔ دوم: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں ہی کی مانند قیمتی ہیں۔ لعل بدخشاں سے مراد وہ ہیرا ہے جو کہ بدخشاں میں پیدا ہوتا ہے۔ شہر بدخشاں آج کی تاریخ میں شمال مشرقی افغانستان اور تا