تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا کی تشریح ولی کی غزل تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا تشریح و وضاحت: اس شعر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں میر کا یہ شعر فوراً رقص کرنے لگتا ہے: ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ولی اور میر دونوں ہی شعرأ کی غزلوں کے مطلعے کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔ ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہو۔ شاید میر نے ولی کے مذکورہ شعر سے متاثر ہو کر اپنی غزل کے مطلعے میں ولی ہی کی طرح تشبیہ کا استعمال کیا ہو، جس کا مقصد کچھ اور نہیں بل کہ اپنی استادی اور فنی مہارت پیش کرنے کا جذبہ رہا ہو۔ زیرِ بحث شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو بدخشاں کے لعل سے تشبیہ دی ہے۔ اس کے دو پہلو ممکن ہیں۔ اول: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں کی مانند سرخ ہیں۔ دوم: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں ہی کی مانند قیمتی ہیں۔ لعل بدخشاں سے مراد وہ ہیرا ہے جو کہ بدخشاں میں پیدا ہوتا ہے۔ شہر بدخشاں آج کی تاریخ میں شمال مشرقی افغانستان اور تا
Digital Urdu Magazine to represent Urdu Literature, Urdu News, Health related materials, various function news of Urdu, Beauty tips, Kitchen tips, Urdu Poetry, Urdu Gazals, Urdu Learning Material, and many more.