نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سلام بن رزاق

 ★خواہ مخواہ ★ (طنزومزاح)  

* سلام بن رزاق *  

 سلام بن رزاق، بدیہی طور پر عربی النسل معلوم ہوتے ہیں اور جب سے عربوں نے بیروت کی تکلیف کی وجہ سے ہندستان میں عارضی قیام کو اپنا وطیرہ بنایا ہے، سلام بن رزاق کے بارے میں بھی شبہ ہونے لگا ہے کہ وہ انھیں میں سے ایک ہیں ـ بلکہ یہ بھی مشہور ہے کہ انھوں نے ہی لوگوں سے خط لکھ لکھ کر عربوں کو یہاں مہمان بلوایا ہے ـ  ان کے مجموعے کے نام میں عربستان کی چلچلاتی دھوپ اور  مارشل اسپرٹ، دونوں موجود ہیں ـ یوں و جسم و ذہن کے اعتبار سے کافی حد تک معتدل ہیں ـ سلام بن رزاق کو میں نے پڑھا پہلے اور ملاقات ان سے بعد میں ہوئی ـ مکتبہ جامعیہ ممبئی میں، میں نے انھیں اکثر دیکھا (طرح طرح کے مناظر وہیں نظر آئے ہیں) ، لیکن تعرف دیر میں ہوا ـ سمٹے سمٹائے بیٹھے رہتے ـ چہرے پر بکثرت نوجوانی کے اثار ـ ایک معلم کا اتنا خوش و خرم ہونا، کچھ عجیب سا محسوس ہوا ـ پھر کسی نے بتایا کہ یہ ہیں ہی خوش رہنے کے شوقین ـ (یہ تحریک سے زیادہ پھیلنی چاہیے)  ان کے نام کے تقریبا سارے حروف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں ـ انھیں جوڑا نہیں جا سکتا ـ غنیمت ہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ ان کے مزاج میں نہیں ہے ـ معلمی، مسلسل مسکراہٹ اور مختصر مونچھوں نے انھیں مکمل بنانے میں مدد کی ـ ان کے قد نے ان کی فہم وشعور کا ساتھ نہیں دیا، لیکن انھیں کون سی ملٹری کی سروس کرنی تھی جو وہ اس طرف توجہ دیتے اور اپنا وقت ضائع کرتے ـ یہ کہانی دل کھول کے لکھتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی حسرت دل میں نہ رہ جائے ـ جو کہنا چاہتے ہیں اسے علامت زدگی پر قربان نہیں کرتے (عربی النسل لوگ کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رکھتے) ـ سلام بن رزاق موسموں کا اثر قبول کرنے کے عادی نہیں ہیں اور یہ جیسے  پہلے  تھے ویسے ہی اب بھی ہیں ـ آخر وضع داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے ـ بہ ظاہر یہ بہت سیدھے سادے اور بے پرواہ آدمی نظر آتے ہیں، لیکن جب میں نے ان پیش لفظ پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ اندر ہی اندر کتنے فکرمند اور خوف زدہ ہیں ـ 

"انسانی قدروں کی بساط مضحکہ خیز طور پر الٹ گئی ہے ـ وزیر شاہ پر سوار ہے ـ ہاتھی گھوڑے کہیں کے کہیں جا پڑے ہیں ـ اور ــــــــــــــ پیادے چاروں خانے چت پڑے ہیں ـ " 

سلام بن رزاق کی شکایت بیجا نہیں معلوم ہوتی، لیکن اس میں، میں ایک ہی ترمیم پیش کروں گا ـ (ترمیمیں پیش کرنے کی مشق مجھے اسمبلیوں کی روداد پڑھ پڑھ کر ہوئی) وہ یہ کہ شطرنج میں وزیر کا درجہ، شاہ سے بلند ہوتا ہے اس لیے وزیر کا شاہ پر سوار ہونا قابل اعتراض بات نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے ـ میرا خیال ہے کہ شطرنج کا کھیل اسی لیے ایجاد کیا گیا تھا کہ ساری دنیا کے بادشاہوں کو خبردار کیا جائے کہ ہوشیار رہو، تمھیں تو پیادہ مات بھی ہو سکتی ہے (بادشاہوں کی مات اور موت میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا) سلام بن رزاق کو بہرحال اتنا پریشان نہیں ہونا چاہیے ـ طبی نقطۂ نظر سے ذہن پر بہت زیادہ بار ڈالنا مناسب نہیں ہے ـ پیادے وقت آنے پر خود بخود اٹھ کھڑے ہوں گے ـ 

(یوسف ناظم ـ کتاب ـ ذکر خیر) 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو