*استاد اور شاگرد کا رشتہ (خود نوشت)*
✒ *عمر فراہی*
Abstract
Teacher and Student Relationship (Autobiography)*
✒ *Umar Farahi*
Sometimes some events and accidents that happen in a person's life become a beacon for his life. This autobiography is based on an incident that happened to me during my childhood at school, which itself was a beacon for me. A lesson also emerges from this story that it is not only necessary for the teacher to read books, but it is also important to pay attention to the direction in which truth and honesty can be trained in children.
کبھی کبھی انسان کی زندگی میں پیش آنے والے کچھ واقعات اور حادثات اس کی زندگی کیلئے مشعل راہ بن جاتے ہیں ۔یہ خودنوشت بچپن میں اسکول کے دوران میرے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے پر مبنی ہے جو خود میرے لئے تو مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے اس کہانی سے سبق بھی ابھر کر آتا ہے کہ استاد کے ذمے صرف کتابیں پڑھا دینا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ بچوں میں سچائی اور ایمانداری کی تربیت کس رخ سے ہو سکتی ہے اس طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے ۔
قصہ یوں ہے کہ ہمارا اسکول گاؤں کے ایک بازار میں تھا ۔جب کلاس کا انٹرول ہوا تو کچھ لڑکے اپنے گھر سے لاےُ ہوے کھانے قریب کے سایہ دار درخت وغیرہ کے نیچے بیٹھ کر کھانے میں مصروف ہو گئے اور کچھ قریب سے آنے والے اپنے گھر بھی چلے جاتے تھے ۔جو نہیں لاتے تھے وہ اسکول کے قریب بازار سے کچھ خرید کر کھا لیتے ۔جب سارے بچے کھانے وغیرہ سے فارغ ہو لیتے تو تھوڑی دیر کیلئے کھیل کود اور تفریح میں مشغول ہو جانا روز کا معمول تھا ۔ایک روز ہم سارے بچوں کو معلوم ہوا کہ بازار میں کوئی جادو کا کھیل ہو رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی ہم سارے بچے جادو کا کھیل دیکھنے کیلئے بازار کی طرف دوڑ پڑے ۔ویسے بھی تیرہ سے چودہ سال کی عمر میں بہت ہی کم بچوں میں سنجیدگی آپاتی ہے اور بچوں کو حقیقت سے زیادہ قصے کہانی اور تجسس بھرے پروگرام اور ڈراموں میں زیادہ مزہ آتا ہے ۔یہ ہم بچوں کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا جب ہم نے ایک جادوگر کو یہ دیکھا کہ وہ ایک نو عمر لڑکے کی گردن کاٹ کر پیٹھ کی طرف موڑ کر دوبارہ صحیح سلامت کھڑا بھی کر دیتا ہے ۔یہ منظر دیکھ کر سارے کے سارے بچے ششدر رہ جاتے ہیں ۔اس کے بعد جادوگر اعلان کرتا ہے کہ سارے لوگ اپنی اپنی مٹھی کھول لیں کیوں کہ اب جو کھیل وہ دکھانے جارہا ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے اور اگر آپ لوگوں نے اپنی جگہ سے ذرہ برابر بھی حرکت کی تو اس بچے کی جان بھی جاسکتی ہے ۔بہت سے لڑکے جو کمزور دل کے تھے وہ تو پہلے ہی کھیل کے بعد چلے گںُے ۔اور جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ انٹرول کے فوراً بعد اسکول کے ہیڈماسٹر شیوپوجن کی دو گھنٹے کی کلاس تھی جو وقت اور اصول کے بہت ہی پابند تھے۔ انہیں کسی بھی بچے کی شرارت اور بدتمیزی بالکل پسند نہیں تھی ۔مگر جادوگر کا کھیل بھی اتنا دلچسپ تھا کہ بہت سارے بچے آگے کا کھیل بھی دیکھنے کیلئے رک گںُے ۔اس بار جادوگر نے بچے کو بایُںں ہاتھ کے بازو پر لیکر داہنے ہاتھ سے اس کے سینے کو اپنے خنجر سے چیرا اور اس کا کلیجہ باہر نکال دیا اور ایک پلیٹ میں رکھ کر ساری بھیڑ کو دکھانے لگا اور بچہ خون میں تڑپنے لگا -جادوگر نے کہا کہ اب آپ اجازت دیں تو میں بچے کے سینے میں یہ کلیجہ رکھ کر اسے زندہ کر دوں۔لوگوں نے بیک وقت ہاں کہا اور بچہ دوبارہ کھڑا ہو کر چلنے پھر نے لگا ۔زیادہ تر بچے اس کھیل کے بعد چلے گںُے ۔جادوگر نے تیسرے کھیل کا اعلان کیا اور ہر کھیل دوسرے کھیل سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز ماحول میں تبدیل ہوتا گیا ۔آخر میں اس نے زمین پر چمڑے کا ایک بیلٹ پھینکااور کچھ منتر وغیرہ پڑھنے کے بعد لوگوں سے اپیل کرنے لگا کہ وہ اپنی اپنی مٹھی کھلی رکھیں -اور جیسے ہی اس نے بین بجانا شروع کیا دھیرے دھیرے چمڑے کی اس بیلٹ میں حرکت ہونے لگی- ہم ٹکٹکی لگاےُ بیلٹ کی طرف ہی دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اب یہ کوئی چمڑے کا بیلٹ نہیں بلکہ ایک زندہ ناگ تھا جو زمین پر کھڑا ہو کر اپنے کھلے ہوے پھن سے لوگوں کو متوجہ کر رہا ہے ۔جادوگر کا یہ آخری کھیل تھا اور اب اس نے لوگوں کو دھمکانا شروع کردیا کہ ہر کوئی اسے دودھ پینے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور دے ورنہ یہ اگر اپنی اصلی حالت میں زندہ رہ گیا تو ان لوگوں کے گھروں تک بھی پیچھا کر سکتا ہے جو بغیر پیسے دیے واپس جارہے ہیں ۔جادوگر کی نفسیاتی دھمکی سے دہشت زدہ ہو کر ہم نےبھی دس روپئے کی نوٹ کا چھٹا کروایا اور ایک روپئے دے کر واپس کلاس کی طرف چل پڑے -اسکول کے کمپاؤنڈ میں پہنچے تو دیکھا پیڑ کے نیچے ٹاٹ پر کچھ بچے کتابیں کھولے ہوےُ بیٹھے ہیں اور کچھ رو رہے ہیں اور کچھ کی پٹائ ہو رہی ہے ۔ہم جیسے ہی قریب پہنچے اور پیچھے جگہ دیکھ کر بیٹھنے لگے تو ماسٹر شیو پوجن نے کہا کھڑے رہو اور پھر کہا کہ کہاں سے آرہے ہو میاں ۔میں نے کہا بازار سے۔ انہوں نےکہا اتنی دیر بازار میں کیا کر رہے تھے ۔ میری زبان سے برجستہ نکلا کہ بازار میں جادو دیکھ رہا تھا ۔میرا اتنا کہنا تھا کہ سارے لڑکے میری طرف دیکھنے لگے گویا اب تو میری اور بھی خیر نہیں ۔مگر میرے اس جواب سے ماسٹر شیو پوجن کے غصے کی رنگت بدل گںُی اور انہوں نے کہا کہ بیٹھ جاؤ -اور پھر انہوں نے سارے بچوں کے سامنے جو بات کہی وہ بہت ہی نصیحت آموز تھی ۔انہوں نے کہا کہ کیا سارے کلاس میں یہ ایک ہی بچہ تھا جس کی نہ تو نانی مری تھی اور نہ ہی اس کے گھر سے بلاوہ آیا تھا اور نہ ہی جانور کو کھانا کھلانے کی بات کی اور بہت ہی سادگی کے ساتھ اس نے سچ بول دیا ۔تم لوگ سوچ رہے ہوگے کہ میں نے اس کی پٹائی کیوں نہیں کی تو سنو اس نے سچائی ظاہر کردی ۔اور یہی تعلیم ہے جو اسکول سے تمہیں سیکھنا چاہیںُے۔ جو شاید ہم تمہیں نہیں سکھا سکے مگر آج اس بچے نے پوری کلاس کو سکھا دیا-ماسٹر شیو پوجن کی بات آج بھی میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے اور مجھے اس بات پر فخر نہیں کہ میری پٹائی نہیں ہوئی بلکہ آج بھی میں یہ سوچتا ہوں کہ پوری کلاس میں صرف دو ہی مسلمان لڑکے تھے اور اتفاق سے اس دن میں کلاس میں تنہا تھا۔ اگر خدانخواستہ اس دن میں جھوٹ بول دیتا تو شاید میں بھی جھوٹ بولنے والے لڑکوں میں سب کے ساتھ برابر کا شریک ہوجاتا ۔یہ ممکن بھی تھا کہ عمر کے جس مرحلے سے میں گذر رہا تھا اور جن بچوں کے ماحول میں میری تعلیمی سرگرمیاں جاری تھیں اور جس طرح ہیڈ ماسٹر بچوں کی پٹائی کر رہا تھا۔ اگر میں ڈر اور خوف سے جھوٹ بول بھی دیتا تو یہ ایک عام بات تھی جس کی وجہ سےنہ میرے مسلمان ہونے کا مزاق اڑتا اور نہ ہی میرے والدین کی تربیت کو ہی موردالزام ٹھہرایا جاتا لیکن ایسے وقت میں اللہ نے میری زبان سے سچ بلواکر ایک ہندو پنڈت کے سامنے میرے والدین کی تربیت اور مذہب کا سر اونچا کر دیا ۔اس واقعے نے خود میری بعد کی کاروباری زندگی میں بھی مشعل راہ کا کردار ادا کیا ہے اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بدعنوانی اور مکاری کے اس دور میں بھی سچائی اور ایمانداری کا اپنا ایک منفرد مقام ہے اور یقیناً قوموں اور ملکوں کی ترقی اور کامیابی میں بھی سچائی اور ایمانداری وہ سند ہے جو صرف ایک مسلمان کے پاس ہی ہو سکتی ہے اگر وہ حقیقت میں مسلمان ہے اور حتی الامکان جھوٹ کا سہارا نہ لے ۔مگر افسوس اب اسکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ سب سرمایہ دارانہ نظام تعلیم اور قومی تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں ۔اب استاد اور شاگرد اور والدین سب کے لئے تعلیم صرف ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے ۔گھر ہو یا اسکول اب دونوں جگہوں پر بچوں میں سچائی اور ایمانداری کی تربیت کا نظم بالکل ختم ہونے کے قریب ہے اور مسلمان بھی تیزی کے ساتھ اس گلوبل تہذیب کا حصہ بن چکا ہے !
اور اب اسکولوں میں صرف کھانے پینے اور جشن کے لئے یوم اساتذہ کی رسم رہ گئی ہے روح تو کب کی فنا ہو چکی ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں