نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Editorial of BISWAS

دوستو!

آشا کرتا ہوں کہ سب صحت مند ہوں گے۔ ہمارا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ سب سوستھ رہیں۔ خوش رہیں۔صحت مندرہیں۔ اسی کے تحت ہمارے تمام کام ہوتے ہیں چاہے ہماری لکچر ہوں، چاہے ہمارے میٹنگ ہوں، چاہے ہمارے دواخانے ہوں  یا چاہے ہمارا یہ بسواس میگزین۔ ان تمام کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ ہم سب صحت  مندرہیں۔  ڈاکٹروں کی چال بازیوں، میڈیکل مافیہ کے جال سے بچے رہیں۔ ہم اور ہماری آنے والی پیڑی کسی بھی بیماری کا شکارنا ہوں۔ اور خدا نخواستہ بیمار ہوتے بھی ہیں تو انہیں خود سے ٹھیک ہونے کی سوویدھاہو گیان ہو۔ اتنا علم ہو کہ وہ اپناعلاج خود  کرسکیں۔ یہ ہمارے یعنی ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری اور ان کے گروپ کامشن اور اہم مقصد رہا  ہے کہ ہم اپنا  ڈاکٹر خود بنیں۔

 

ابھی 20 مارچ کو ممبئی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹیس بی جی کوئسی پاٹل کا ایک ویڈیو دیکھنے میں آیا۔ اس ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ انہیں اور ان کی پتنی کو کرونا پازیٹیو تھا انہوں نے ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری سے سمپرک کیا اور ڈاکٹر بسوروپ چودھری نے یہ یقین دلایا کہ وہ بنا دواوں کے ٹھیک ہوجائیں گے اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ ان کی پتنی کو انکھوں کا پروبلم تھا وہ بھی ڈاکٹر بسواروپ چودھری کی ڈائٹ سے ٹھیک ہوگئیں۔ جبکہ ان کی بیٹی انکھوں کی سرجن ہیں انہوں نے بہت کہا کہ وہ کسی ڈاکٹر سے اپنا علاج کرائیں۔ لیکن انہوں نے ڈاکٹر بسوروپ کی ڈائٹ سے ہی اپنے آپ کو ٹھیک کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی عمر 81 سال ہے اور وہ بھارت جوڑو یاترا میں روزانہ 25 کلو میٹر تک پیدل چلتے ہیں۔ یہ سارا کمال دوستو ڈاکٹر بسوروپ کی ڈائٹ یعنی DIP DIET  کا ہے۔

            ایک بات چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہی کہ ڈاکٹر بسوروپ رائے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو میں بتا دوں کہ ڈاکٹر ہوتا کون ہے۔ آپ گوگل کر کے دیکھیں گے یا تاریخ میں جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ ڈاکٹر دوائی دینے والے کو نہیں کہتے بلکہ ڈاکٹر اسے کہتے ہیں جو سکھاتا ہے۔ گیان دیتا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی گیان ہو۔ ڈاکٹر بسوروپ رائے چودھری تو انسان کو انسانیت کا گیان دیتے ہیں۔ مریض کو ٹھیک ہونے کا گیان دیتے ہیں۔ صحت مند کو بیمار نہیں ہونے کا گیان دیتے ہیں۔ اور ایک تو یہ کہ ڈاکٹر صرف اور صرف اس کو لگانے کا ادھیکار ہے جس نے پی ایچ ڈی کی ہو۔ ڈاکٹر بسوروپ رائے چودھری نے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں نے انہیں Honorary Doctorate  بھی عطا کیا ہے۔ اب بتائیں کیا ڈاکٹر بسوروپ ڈاکٹر ہیں یا نہیں۔ ڈاکٹر بسوروپ تو صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ وہ ڈاکٹروں کے ڈاکٹرہیں۔ ڈاکٹر بسوروپ کے ساتھ کئی ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹر س ڈاکٹر بسوروپ سے مشورہ لیتے ہیں۔

            ڈاکٹر بسورو پ رائے چودھری میڈیکل جگت میں ایک اوتار کا روپ ہے۔ اگر آپ ان کے پیشنٹ سے بات کریں گے یا ان کے ویڈیو دیکھیں گے انکی بھاوناتمک کتھا سنیں گے تو یقیناً آپ کے انسو نکل جائیں گے۔ جن میں بڑے بڑے MD, MS ڈاکٹرس بھی موجودہیں۔ جو خود ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کیا اور میڈیکل مافیہ کے جال سے نہیں بچ سکے۔لیکن بسوروپ نے کس طرح سے انہیں ٹھیک کیا اور دکھی لوگوں کے دکھ دور کئے ہیں۔ ان کے جیون میں ایک آشا کی کرن بن کر ابھرے ہیں۔ جنہوں نے جینے کی آشا ہی کھو دی تھی وہ آج نہ صرف جی رہے ہیں بلکہ دوسرے مریضوں کیلئے ایک پریرنا ثابت ہورہے ہیں۔

            دوستو! اگر آپ بھی اپنے پریشانیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے روگوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو تبدیلی ضروری ہے۔ کس چیز کی تبدیلی جیون شیلی کی دوستو۔ اپنے جیون کوپرکرتی کی طرف پھیر دو اور اگر کسی چیز کی مدد چاہئے تو تقریباً ایک ہزار سے زیادہ کی ڈاکٹر بسوروپ کی ٹیم آپ کی سیوا کیلئے 24 گھنٹے تیار ہے۔دیش بھر میں HiiMS کا جال بڑھتا جارہاہے۔ اس سے بھی آپ مدد لے سکتے ہیں ،فائدہ اٹھائیں، https://coronakaal.tv/ پر ویڈیوز دیکھیں  https://biswaroop.com/ کو دیکھتے رہیں اس پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں جو آپ کو جیون بھر روگ مکت رہنے میں مدد کرسکتی ہیں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...