ایک طالبِ علم نے اپنے استاذ صاحب سے عرض کیا :
استاذ محترم! آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔
لیکن
جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے۔
استاذ صاحب نے فرمایا: شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا : پھولوں کے رس سے۔۔۔
استاذ صاحب نے پوچھا : اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہو گا؟
طالب علم نے جواب دیا : کڑوا ہوگا۔۔۔
استاذ صاحب نے فرمایا : اے میرے بیٹے۔۔۔ درس وتدریس کا شعبہ بھی شہد کے مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاذ شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں (کتب، تجربات، مشاہدات) کا دورہ کرتا ہے اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ میٹھے شہد (خلاصے) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی حفاظت فرمائے جو انبیاء کے اس کام سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمارے ہر استاذ اور استانی کے لیے سلامتی ہو۔
-------------۔
اس حکایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی استاذ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے درس میں شہد کے جیسی چاشنی نہیں، یعنی طلبہ دلچسپی نہیں لیتے تو دو وجوہات ہو سکتی ہے :
پہلی وجہ یہ کہ اس استاذ نے شہد کی مکھی کی طرح پھول پھول کا دورہ نہیں کیا۔ یعنی تیاری کے لیے صرف ایک کتاب پر تکیہ کر لیا۔
دوسرا یہ کہ شہد کی مکھی کی طرح اس استاذ نے پھولوں کا رس نکال کر شہد بنانے کے بجائے طلبہ کے سامنے کڑوے پھول لا کر رکھ دیے۔ یعنی جیسا کتاب میں پڑھا تھا ویسا کا ویسا طلبہ کو سنا دیا۔
اگر اس میں طلبہ کے ذہنوں کے مطابق مثالیں شامل ہوتی، تختہ سیاہ یا دیگر تعلیمی آلات سے مدد لی جاتی، مناسب سرگرمیوں کا انتخاب کیا جاتا تو اس محنت کا نتیجہ میٹھے شہد کی صورت میں نکلتا۔
استاذ کا کام شہد کی مکھی کے کام کی طرح سخت اور تھکا دینے والا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھی شہد جیسا لذیذ وشیریں ہے۔
┄┈•※ ✤✤ ※•┄┈
A student asked his teacher:
Dear teacher! In your period we understand well, enjoy what you say and therefore look forward to your period.
But
When we read a book, we don't get the pleasure that you get in your period.
The teacher said: How does a bee make honey?
A student answered: From the juice of flowers.
The teacher asked: If you eat the flowers like that, how will they taste?
The student replied: It will be bitter.
The teacher said: O my son. The field of teaching and learning is also like the work of a bee. A teacher like a bee visits millions of flowers (books, experiments, observations) and then brings before his students the juice of these flowers in the form of sweet honey (abstract).
May Allah protect everyone who is related to this work of prophets.
Peace be upon all our teachers and students.
--------------
One aspect of this story is that if a teacher feels that my teaching is not sweet like honey, that is, the students are not interested, then there can be two reasons:
The first reason is that this teacher did not visit the flower like a bee. That is, relied on only one book for preparation.
Second, like a bee, instead of extracting the juice of flowers and making honey, this teacher brought bitter flowers in front of the students. In other words, he told the students the same as it was read in the book.
If it includes examples according to the students' minds, helps with blackboard or other teaching aids, chooses appropriate activities, the result of this labor will be sweet honey.
The work of a teacher is as hard and tiring as the work of a bee. But the result is also a honey-like deliciousness.
┄┈•※ ✤✤ ※•┄┈
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں