غزل
گماں سے کام نہ لو تم دماغ ہوتے ہوئے
رہے گا دل میں اندھیرا چراغ ہوتے ہوئے
سہولتوں کی نکالی گئی ہیں تدبیریں
پریشاں پھر بھی بشر ہے فراغ ہوتے ہوئے
مری نظر سے نظر مل کے اس کی لوٹ گئی
وہ دل تلک نہیں پہنچا سراغ ہوتے ہوئے
میں بے قصور تھا لیکن قصور وار ہوا
تو پاک صاف ہے دامن پہ داغ ہوتے ہوئے
غریب شخص کو پردیس جانا پڑتا ہے
بھٹکتا کون ہے صحرا میں باغ ہوتے ہوئے
قلم کا آپ نے سودا اگر کیا ہی نہیں
وہ کیسے ہو گیا شاہین ، زاغ ہوتے ہوئے
میں اس کی دریا دلی کا ہوں معترف منظر
نظر سے جس نے پلائی ایاغ ہوتے ہوئے
__ منظر اعظمی __
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں