غزل
وقت کی سانس رکے، برگ نوا رک جائے
وہ اگر کہہ دیں ابھی باد صبا رک جائے
موت کا رقص جنوں دیکھنے والے دیکھیں
چلتے چلتے جو گھڑی بھر کو ہوا رک جائے
خوش گواری ہے یہاں، نرم مزاجی ہے یہاں
جس کو رکنا ہو سر دشت وفا رک جائے
اپنی زلفوں کو جھٹک دے تو برسنے لگیں ابر
اپنی زلفوں کو وہ باندھے تو گھٹا رک جائے
وہ ہو مصروف سفر جب میں پکاروں اس کو
سن کے بے ساختہ وہ میری صدا رک جائے
جس جگہ پائے ترے قرب کی بھینی خوشبو
چلتے چلتے وہیں نقش کف پا رک جائے
زندگی موت سے بھی سخت ہے امروز اے نور
فرق کچھ بھی نہیں پڑتا چلے یا رک جائے
سید محمد نورالحسن نور
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں