نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*سفرنامہ* *پانچ دن نہر کے شہر پانامہ میں* *کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ* (پروفیسر محمد قطب الدین (ماہر نفسیات. شگاگو )

*سفرنامہ* 

Safarnama 

*پانچ دن نہر کے شہر پانامہ میں*

Five days place of lake

*کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ*

(پروفیسر محمد قطب الدین (ماہر نفسیات. شگاگو ) 


یہ ایک سفر نامہ ہے ماہر نفسیات کا جسے ہزاروں ہا ہزار افراد کو ان کی نفسیات کو ان کی فکر اور ان کے خیالات کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا ہے.. مسافر نے یورپ و امریکہ اور ایشیا کے درجنوں ممالک کے اسفار کیے ہیں.. جن جن ملکوں میں جانا ہوا وہاں کی سماجی، عمرانی، نفسیاتی، معاشرتی، تہذیبی زندگی کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.

جو بات کثرت سے مشاہدہ میں آۂی وہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے افراد اعلی اخلاقی اقدار کے حامل ہیں ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں.. کوشش یہ ہوتی ہیں کہ کسی دل آزاری و دل شکنی نہ ہو.عفو و درگزر سے کام لینا گویا ان کے خون میں شامل ہیں.. میں یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میری قوم دنیا کی ایک ترقی یافتہ قوم بنے اور میں سمجھتا ہوں کہ قومی ترقی اور تعمیر کا کام تب ہی ہوگا جب ہم حقیقت پسند بنیں گے اور اعلی اخلاقی اقدار کی پہچان ہماری پہچان بن جائے گی.

پانامہ وسط امریکہ کا ایک خوبصورت ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے. پانامہ شہر اس ملک کی راجدھانی ہے. اس کی آبادی 2022 کی مردم شماری کی حیثیت سے چوالیس لاکھ چار ہزار ہے( 4404000) یہاں کی قومی زبان اسپینش ہے. نیشنل اسمبلی کے تحت ملک کا نظام چلتا ہے.. یہاں کا موسم معتدل اور گرم رہتا ہے یہاں کے باشندے زیادہ ترسیاہ فام ہے.

دنیا میں دو نہروں والے ملک بہت مشہور ہیں ایک مصر جہاں نہرسویز واقع ہے اور دوسرا پانامہ.

مسافر کو پانامہ شہر کو گزشتہ ماہ قریب سےدیکھنے اور رہنے کا موقع ملا ہے. یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ملک میں نہریں آمد و رفت اور زرعی شعبے کی ترقی میں بہت مدد کرتی ہیں۔ دنیا میں ایسے بہت سے شہر ہیں جہاں نہروں کے ذریعے ہی شہر کے اندر آمد و رفت کا نظام چلتا ہے.

شہروں کے درمیان میں واقع نہریں عام طور پر زیادہ لمبی نہیں ہوتیں. 

 پانامہ نہر کی لمبائی اتنی ہے کہ اسے عبور کرنے میں جہازوں کو اوسطاً 10 گھنٹے لگتے ہیں۔ اس نہر کی تعمیر کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے جس کے بارے میں جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔

اس نہر کا نام پاناما کینال ہے جو وسطی امریکا کے شہر پاناما میں واقع ہے۔ یہ نہر بحرالکاہل اور (بحیرہ کیریبین کے راستے) بحر اوقیانوس کو جوڑتی ہے۔ یہ 82 کلومیٹر طویل نہر بین الاقوامی تجارت کے اہم آبی راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 15 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جہاز گزرتے ہیں۔ سابقہ میں اس نہر سے تقریباً 1000 جہاز یہاں سے گزرتے تھے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس نہر کی وجہ سے امریکہ کے مشرقی اور مغربی ساحلوں کا فاصلہ تقریباً 12,875 کلومیٹر کم ہو جاتا ہے، ورنہ جہازوں کو ایک طویل چکر لگانا پڑتا، جس میں تقریباً دو ہفتے لگ جاتے۔ لیکن اب جہاز یہ فاصلہ 10-12 گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔

آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ پاناما کینال تازہ پانی کی جھیل ہے جو شہر ' سے گزرتی ہے جس کے پانی کی سطح سطح سمندر سے 26 میٹر بلند ہے۔ ایسے میں یہاں بحری جہازوں کے داخلے کے لیے تین حصے بنائے گئے ہیں، جن میں جہازوں کو پہلے داخل کیا جاتا ہے اور پھر پانی بھر کر اوپر کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس جھیل سے گزر سکیں۔

دوسری خاص بات اس نہر کی یہ ہے کہ یہ دنیا کی واحد آبی گزرگاہ ہے جہاں کسی بھی جہاز کا کپتان اپنے جہاز کا کنٹرول مکمل طور پر پانامہ کے مقامی ماہر کپتان کے حوالے کر دیتا ہے۔

اس نہر کی تعمیر میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا فرانس نے 1881 میں اس کی تعمیر شروع کی لیکن رہنے کی جگہ کی کمی اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو بیماریاں ہونے لگیں اور انجینئرنگ کے مسائل (جیسے مشین کی خرابی) کی وجہ سے فرانس نے کام درمیان میں ہی روک دیا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس نے اسے بنانے کے لیے تقریباً نو سال تک کام کیا لیکن اس دوران یہاں تقریباً 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

1904 میں امریکہ نے اس نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا اور بالآخر 1914 میں اس نے اس نہر کا کام مکمل کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے اس نہر کی تعمیر مقررہ وقت سے دو سال قبل مکمل کر لی تھی۔ اس نہر کی تعمیر کو دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین انجینئرنگ منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔

پانامہ دراصل یہ گرانڈ کولمبیا کا حصہ تھا امریکہ نے اس عظیم ملک کے تین ٹکڑے کیے کولمبیا، وینزویلا اور پانامہ کی شکل میں اب دنیا کے نقشے پر دکھائی دیتے ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں. تقسیم کے باوجود ان تینوں ممالک کے باشندے خوشحال ہیں اور دنیا کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں.. 

*پانامہ اور مسلمان*

پانامہ میں مسلمانوں کی خاطر خواہ آبادی ہے.. بیشتر لوگ کاروبار و چھوٹی موٹی تجارت کرتے ہیں اور ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں محنت کش ہیں وہاں کے مقامی باشندے مسلمانوں سے لین دین اور شادی بیاہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں. پانامہ حکومت فراخدلی کے ساتھ اپنے شہریوں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے..

3\4 نومبر کو یومِ آزادی کے طور پر بڑے دھوم دھام، رنگا رنگ پروگراموں کے ذریعے منایا جاتا ہے.

پانامہ کی معیشت یہاں کے قدرتی وسائل اور پانامہ نہرت(کنال) سے ہونے والی آمدنی ہے..

یہاں کثیر تعداد میں ہندوستانی غیر مسلم بھی آباد ہیں جو مقامی لوگوں کو سود پر رقم دیتے ہیں اور کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں..

میں بطور ماہر نفسیات اور اپنے طویل طبی تجربات کی روشنی میں اپنے قارئین کو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ جب بھی موقع ملے ایک بار پانامہ کا سفر ضرور کریں..

 ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ ہم ہندوستانی جب باہر ملکوں میں ہوتے ہیں ملنسار، خوش اخلاق اور ایک دوسرے کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں کسی کی دل آزاری، مذہب اور ذات کی بنیاد پر کوئی لعن طعن، نفرت انگریز نظریات و خیالات کا اظہار کھلے عام نہیں کرتے ہیں جس طرح حالات و واقعات اور مذہبی جنون، علاقائی و لسانی تعصب گزشتہ چند برسوں سے وطن عزیز بھارت میں دیکھنے کو ملتا ہے.. ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور ان کی خوشحالی و ترقی سے کچھ سیکھنا ہوگا اور ان کے ترقی کے راز کو جاننا ہوگا..

آخر میں علامہ اقبال کی اس نظم پر اپنا مختصر سا سفرنامہ ختم کرتا ہوں.. جس کا عنوان ہے. 


*رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے.*

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ،

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ.

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ،

ایّامِ جُدائی کے سِتم دیکھ، جفا دیکھ.

بے تاب نہ ہو معرکۂ بِیم و رجا دیکھ!

ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں.

یہ گُنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ یہ صحرا، یہ سمندر یہ ہوائیں

تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے

دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے

ناپید ترے بحرِ تخیّل کے کنارے

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

تعمیرِ خودی کر، اَثرِ آہِ رسا دیکھ!

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں

آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں

جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں. 

اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!

نالندہ ترے عُود کا ہر تار ازل سے، 

تُو جنسِ محبّت کا خریدار ازل سے، 

تُو پِیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے. 

محنت کش و خُوں ریز و کم آزار ازل سے، 

ہے راکبِ تقدیرِ جہاں تیری رضا، دیکھ!. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...