مولانا آزاد* مولانا عبد الماجد دریابادیؒ اپنی ایک ریڈیاٸی تقریر میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کی علمی ، ادبی اور انشاٸی عظمتوں کا یوں اعتراف کرتے ہیں :
!
*مولانا آزاد*
مولانا عبد الماجد دریابادیؒ اپنی ایک ریڈیاٸی تقریر میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کی علمی ، ادبی اور انشاٸی عظمتوں کا یوں اعتراف کرتے ہیں :
" ادب عالیہ یا کلاسکس کی اصطلاح تو اردو میں بعد کو چلی ہے ، باقی یہ کلاسکل یا عالی قدر ادب تو مولانا کا جیسے حصہ تھا ـ ان کے قلم کا شروع ہی سے ایک امتیازی خاصہ تھا ـ
تیور مردانہ ، لہجہ شریفانہ ، ترکیبوں میں جزالت ، الفاظ میں جلالت ، تشبیہوں میں جدت ، استعاروں میں ندرت ، خیال میں بلندی ، بیان میں صفائی ، مطالب فکر انگیز ، اسلوب ولولہ خیز ، نثر ہر جگہ ادیبانہ کہیں خطیبانہ ، خطابت کا مزاج شاہانہ ، عبارت کی سطح کہیں حکیمانہ کہیں حاکمانہ ، حکمت کی جگہ حکمت ، ظرافت کی جگہ ظرافت ، حکایت غم و حزن ہو یا داستان سرور و نشاط ، لطافت و شادابی سطر سطر سے عیاں ، آمد اور بے ساختہ پن لفظ لفظ سے نمایاں ، مطالعے میں گہرائی ، مشاہدے میں گیراٸی ، بات میں بات پیدا کرنے کا وہ سلیقہ اور معمولی جزٸیات سے دور رس نتائج نکالنے کا وہ ملکہ کہ دھوکہ حضرت رومیؒ کی مثنوی کے دفتروں کا ہونے لگے ۔
دین و مذہب مولانا کے قلم کا موضوع خصوصی سال ہا سال رہا ۔ ” الہلال“ ، ” البلاغ “ کے سارے صحافتی اور کتاب ” تذکرہ “ کے تصنيفی دور کا حرف اول بھی یہی ہے اور حرف آخر بھی یہی ۔ باٸے بسم اللّٰہ بھی یہی اور تاٸے تمت بھی یہی ۔ خشکی مذہبی تحریروں کا ایک لازمی جز سمجھ لی گٸی ہے ، مولانا کا قلم اس علت سے کوسوں کا کیا منزلوں دور رہا ۔ یہاں تک کہ جن فقہی عنوانات پر مولانا نے قلم اٹھایا ہے ، انہیں بھی گل و گل زار بنا کر چھوڑا ہے ۔ قادر الکلام کا لفظ ہمارے ہاں شاعروں ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ نثر نگاری میں کسی پر اس کا اطلاق اگر پوری طرح ہوسکتا ہے تو وہ ابوالکلام کی ذات ہے ۔ مضمون خوشی کا ہو یا غم کا ، داستان رزم کی ہو یا بزم کی ، موضوع فنی ہو یا شعری ، عنوان سیاسی ہو یا فلسفیانہ ، یہ سدا بہار قلم ہر انداز بیاں ، ہر اسلوب نگارش ہر پرواز فکر پر یک ساں قادر ۔ “
مولانا دریابادی ” غبار خاطر “ کے متعلق تحریر کرتے ہیں :
” خدانخواستہ اگر ادبیات اردو کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہوجاۓ اور تنہا ابو الکلام کی ” تخليقات “ ( یہ لفظ میرا نہیں ہے ) باقی رہ جاٸیں تو ان شاء اللّٰہ ادب اردو کی عظمت و جلالت کا اندازہ لگانے کے لیے وہ بس ہوں گی ۔ اور خدا نخواستہ ابوالکلامیات کے بھی دوسرے اجزا معدوم ہوجاٸیں تو ان کا بھی سارا عطر کھنچا کھنچایا ایک غبار خاطر کے اندر موجود ملے گا ۔ اور خود یہ غبار خاطر عطیہ کس کا ہے ؟ جیل کا ! یوسف علیہ السلام تو پیغمبر تھے ، مگر ان کے بھی جوہر کو جِلا جا کر کہاں ہوٸی ؟ قید زنداں کی چہار دیواری کے اندر ! تو حیرت نہ کیجیے کہ اس سنت یوسفی کا حق اپنی بساط بھر بی بی زلیخا کی ہم نام کے شوہر نے ادا کیا ۔ جو اپنی نو جوانی میں خود یوسف جمال مشہور تھا ۔“
( منقول از نشریات ماجدی ، مکمل ۔ ص ١٠٣ تا ١٠٦ )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں