“ میں منظور موچی کا بیٹا “
کمال کرتے ہیں آپ ابّاجی کتنی دفعہ آپ کو منع کیا ہے سڑوکے مار مار کرچائے مت پیا کریں۔ رابعہ! رابعہ کہاں ہو غصے سے میں نے بیوی کو آواز دی وہ بے چاری گھبرا کر دوڑی چلی آئی۔ شام کو کمال آئے گا اچھی سی چائے کا انتظام کر لینا اور ہاں ابّاجی، انہیں ان کے کمرے میں چائے دینا، ڈبو ڈبو کر بسکٹ کھانے سے بھی باز نہیں آتے۔
“حد کرتے ہیں آپ بھی ابّاجی سن رہے تھے” رابعہ نے ناگواری سے کہا وہ ابّاجی سے بہت محبت کرتی تھی۔ شرمندگی سے مڑتا اُن کا مضطرب وجود میں نے دیکھا ہی نہیں۔ کمال سے میری دوستی زیادہ پرانی نہیں تھی کچھ عرصہ پہلے ہی اس کا تبادلہ میرے دفتر میں ہوا تھا۔ اللہ کے اپنے کام ہیں اور اپنے ہی بندوبست۔۔۔! شام کو کمال آیا ساتھ میں اس کے والد صاحب بھی تھے۔ “یار میں شام زیادہ تر اپنے ابّاجی کے ساتھ ہی گزارا کرتا ہوں۔ آج گھر میں بھی کوئی نہیں تھا تو سوچا انہیں ساتھ لے چلتا ہوں”۔ کیوں نہیں کیوں نہیں بہت خوشی ہوئی اچھا کیا یار میں نے کہا۔۔۔! “کی حال اے برخودار” میرے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔ شُکر ہے اللہ کا کہتے ہوئے میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک میں چلا آیا۔ سفید داڑھی نورانی چہرے والے شفیق بزرگ۔ پہلا تاثر مُجھ پر یہی پڑا۔ صوفے پر بیٹھ کر ابّاجی نے بڑے آرام سے ٹانگیں اوپر کیں اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ اپنی ناگواری چھپاتے ہوئے میں نے دیکھا، کمال نے جھٹ آگے بڑھ کر ان کی ٹانگیں اوپر کرنے میں ان کی مدد کی۔
اوہ کتنا شرمندہ کرواتے ہیں یہ بزرگ بھی۔۔۔! میں کمال کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔ مگر وہ ہرگز شرمندہ نہیں تھا، اس کے چہرے پر بڑی نرم مسکراہٹ تھی۔ ابّاجی کی کمر کے پیچھے کُشن رکھتے ہوئے اُس نے پوچھا آپ ٹھیک بیٹھے ہیں نا ابّاجی؟ “آہو پُتّر” چائے لگنے تک آدھے گھنٹے میں اس نے دو تین مرتبہ پوچھا ابّاجی آپ ٹھیک ہیں بور تو نہیں ہو رہے۔ “او کاکے تُسی گلّاں باتاں کرو میں سن رہا ہوں تاڈیاں پڑھیںاں لکھیاں گلّاں اور خوش ہو رہا ہوں”
“کاکے“ اب تو کمال کو ضرور بُرا لگا ہوگا۔ مگر وہ ہنس دیا۔ ایک بیٹے کی باپ کے لیئے یہ خُوبصورت نرم ہنسی جنّت کی نوید تھی یقیناً۔ “ہمارے ابّاجی نے ہمیں پڑھانے کے لیئے بہت محنت کی ہے کتابیں جلد کیا کرتے تھے۔ آمدنی ہی کتنی ہوتی ہے، ہم دو وقت کھاتے اور ابّا امّاں اکثر ایک وقت اور کبھی تو ایک وقت کا بھی مُیسّر نہیں ہوتا تھا” والد کا ہاتھ پکڑ کو بوسہ دیتے ہوئے کمال نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو تھے وہ اپنے حسب نسب پر ہرگز شرمندہ نہیں تھا۔
چائے لگ گئی۔ رابعہ بلانے آئی تو کمال کے والد نے “او آ۔۔۔! دھیئے رانیئے ماشاءاللہ ماشاءاللہ” کہتے ہوئے اس کے سر پر پیار دیا۔ اُسے بالکل بھی برا نہیں لگا تھا۔ محبت سے انہیں ٹیبل پر لے گئی۔ پرچ میں چائے ڈال کر سڑوکے مار مار کر پیتے ابّاجی کا کئی دفعہ کمال نے نیپکن سے منہ صاف کیا۔ اس کے ہاتھوں میں اس قدر نرمی اور محبت تھی کہ قلم ہوتے تو محبت کی لازوال داستان لکھتے، دِل ہوتے تو نثار جاتے، آنکھیں ہوتے تو واری ہی چلے جاتے۔۔۔! رابعہ کمال کی اس قدر محبت اور شفقت پر حیران تھی اس نے دُکھی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اُس کی نظروں نے مُجھے آسمان سے زمین پر لا پٹخا۔ میں جن کے وجود کا حصہ تھا جن کی دُعاؤں اور محنتوں کا ثمر تھا انہی کی ان معصوم سادہ اداؤں سے نالاں تھا شرمندہ تھا۔ میں منظور موچی کا بیٹا اپنے باپ کے حسب نسب پر شرمندہ تھا۔ بیٹے کو بڑا افسر بنانے کے خواب نے جس کے ہاتھوں میں چھید کر دیئے تھے۔ رات رات بھر جاگ کر کام کرتے ہاتھ تھکتے نہیں تھے۔ پُتّر کی فیس جو جمع کروانی ہوتی۔ دل سینے کی بجائے انگلیوں کی پوروں میں بسا رکھا تھا ابّاجی نے۔ کام ایسا کہ سارا شہر ابّاجی کی ہنر مندی کی تعریف کیا کرتا تھا۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں میرے رویئے سے انگلیوں کی پوروں میں بستے اس دل پر کیسے گھاؤ لگے ہوں گے۔ انا کے پنجرے میں قید سوچ کا پرندہ پنجرہ کھلتے ہی مثبت سمت میں پرواز کرنے لگا۔
میں کمال سے معذرت کر کے ابّاجی کو بلانے چلا آیا۔ انہیں لا کر پیار سے کرسی پر بٹھایا چائے کی پیالی سامنے رکھی اور بسکٹ چائے میں ڈبو کر اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگا۔ ابّاجی نے حیرانی سے میری طرف دیکھا کچھ کہا نہیں ان کی آنکھوں کی نمی اپنی کم مائیگی کی دہائی دے رہی تھی۔ ان آنکھوں کی نمی میں تیری بخشش ہرگز نہیں۔۔۔! میں نے پیار سے ان کی داڑھی میں لگی چائے صاف کرتے ہوئے سوچا اور کمال کی موجودگی کی پروا کیئے بغیر ان کے قدموں میں بیٹھ کر ہاتھ جوڑ دیئے۔ میرے آنسو رکتے نہ تھے، مجھے قرار نہ تھا۔ ابّاجی میرے پیارے ابّاجی، معاف کر دیں اپنے نالائق بیٹے کو معاف کر دیں ان کی ہتھیلیوں کو دیوانہ وار چومتے میں معافی کا طلبگار تھا۔ منظور موچی کا اعلی عہدے پر فائز نااہل بیٹا۔ ابّاجی نے میرا ماتھا چُوما جھلا چل ادھر اوپر بیٹھ میرا افسر پُتّر۔۔۔!
“اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی”
کچھ ایسی ہی میری بھی کیفیت تھی۔ میں نے کہا نا اللہ کے اپنے کام ہیں اور اپنے ہی بندوبست۔ میری کوئی ادا اسے پسند آ گئی تھی شاید تبھی میری ہدایت کا بندوبست کر دیا تھا۔ مگر میں کم ظرف اس قابل کہاں۔ قمیض کے کونے سے ابّاجی کو آنسو صاف کرتے دیکھ کر میں نے سوچا۔ میں ناقدرا تھا میرا رَبّ نہیں ابّاجی کی انگلیوں کی پوروں میں بستے دل کی اُس کے ہاں بڑی قدر تھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں