بسم اللہ الرحمن الرحیم
Let's multiply GOODNESS
دور کی کوڑی ( واقعہ نمبر 779)
ایک صاحب نے فرمایا کہ بینک جو قرض دیتا ہے اس سے کاروبار کیا جاتا ہے اور اسی کے منافع سے بینک کو سود ادا کیا جاتا ہے۔ تو یہ رقم تو کاروبار کے منافع سے آرہی ہے اور کاروبار کرنا اور منافع کمانا تو جائز ہیں۔ اس میں قباحت کیا ہے؟
پوچھا یہ گیا کہ کیا بینک کاروبار میں ہونے والے منافع کی شرح کی بنیاد پر سود کا تقاضا کرتا ہے یا پہلے سے طئے شدہ نرخ پر۔ بولے کہ پہلے سے طئے شدہ شرح پر۔ عرض کیا گیا کہ یہی تو ناانصافی ہے۔ اگر بینک یہ کہہ دے کہ کاروبار میں جتنا منافع ہوگا، اسی مناسبت سے اسے بھی زائد رقم ادا کی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہوگی۔
مسئلہ یہ ہے کہ بینک کاروبار کے ممکن نفع و نقصان کو یکسر مسترد کرکے صرف اپنے منافع یعنی پہلے سے طئے شدہ سود کی فکر کرتا ہے، جو ناانصافی ہے، نابرابری ہے اور حق تلفی بھی ہے۔
ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، ڈائریکٹر، گُڈ کیریکٹر او پی سی پرائیویٹ لمیٹڈ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں