نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

,ہزاروں غلطیاں ایسی ۔۔۔،،

,,ہزاروں غلطیاں ایسی ۔۔۔،، 


یوم اساتذہ پہ مجھے اپنے ,,ہونہار شاگرد ،، بھی بہت یاد آتے ہیں ۔ اردو میں تلفظ اور املا کی ایسی غلطیاں جن کو چیک کرتے ہوئے غصہ بھی مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے ۔ مجھ سے کئی ٹیچرز اپنے دلچسپ تجربات شئیر کرتے ہیں ، ایک نے بتایا کہ 

" کلاس میں بچیوں سے کہا پہلے درخواست سنائیں پھر لکھیں ، ایک بچی نے بخدمت جناب کو "بدبخت جناب" پڑھا میں نے تصحیح کردی۔ پھر اس نے کہا ,, فوزیہ کو دو دن کی چھٹی عنایت کی جاوے ،،

  میں نے پوچھا آپکا نام فوزیہ ہے ؟ جواب آیا درخواست میں یہی لکھا ہے۔ وہاں فدویہ لکھا تھا۔ 


پرچے میں چچا کے نام خط آیا ،کسی کے چچا شاید وفات پاچکے تھے ، خط کے آغاز میں لکھا

 ,, السلام علیکم یا اہل القبور ! ,, 

ایک ٹیچر نے بتایا طالب علم خط نویسی میں "امید ہے آپ بخیریت ہوں گے" کو " امید ہے آپ بیغیرت ہوں گے " لکھ ڈالتے ہیں ۔ 

  ,, پھپھوندی ،، کو پھپھو ۔۔۔ ندی پڑھتے ہیں۔

جملہ تھا : 

,, اور توپخانے سے مسلسل گولہ باری ہورہی تھی ،، 

 بچے نے وقفہ دے کر پڑھا۔ 

,,,اور تو پاخانے سے مسلسل گولہ باری ہورہی تھی ،، 


,,درختوں پر انجیر لٹکے ہوئے تھے ،، کو درختوں پر انجینئر لٹکے ہوئے تھے ،، پڑھتے ہیں ۔ 


اکثر تو گھر جا کر بتاتے ہیں مس کہہ رہی تھیں آپ خود کشی پر دھیان دیں ، حالانکہ مس نے خوشخطی کی بات کی تھی ۔ 

میرے صاحبزادے سے پوچھا گیا آپ کی مما ڈائجسٹ رائیٹر بھی ہیں ، ڈائجسٹ رائٹر کا کیا مطلب ہے ؟ 

بولے ,, ہضم ہونے والی رائٹر ۔۔۔ 😐


پچھلے ہفتے میری شاگردہ نے لکھا:   

شاعر مشرک فرماتے ہیں 

 ,,محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ،

 ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں گند ،، 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...