غزل
تم نے رکھ دی ہے کتنی بھاری شرط
ریزہ ریزہ ہوئی ہماری شرط
کیسے بے تاب دل کو سمجھاؤں
کیسے منظور ہو تمھاری شرط
سُرخ روٗ پھر ہوئے ہمارے چراغ
پھر مخالف ہوا نے ہاری شرط
بے قراری کا لطف لینا سیکھ
ہے محبت میں بے قراری شرط
کھو دیا توٗ نے مجھ کو عجلت میں
مان لیتا میں تیری ساری شرط
رفعتِ خاک زاد کی خاطر
کیوں نہ راغبؔ ہو خاکساری شرط
افتخار راغبؔ
دوحہ قطر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں