اس قدر شور کہ ظلمت بھی لگی تھی ڈرنے
رات سونے نہ دیا آہِ دلِ مضطر نے
غالباً روح نے لبیک کہا تھا میری
خاک کو چاک پہ جوں ہی رکھا کوزہ گرنے
کس لیے خوف کو تم دل میں جگہ دیتے ہو
جان کتنوں کی یہاں لی ہے قضا کے ڈرنے
جن کی تعمیر میں شامل ہے پسینہ میرا
مجھ کو ٹھکرادیا یکسر انہی بام و درنے
خیر سے آنکھ چرانے کا نتیجہ ہے کہ آج
ہر طرف سے دلِ انساں کو ہے گھیرا شر نے
گل کئی رنگ کے گلشن میں میسر تھے مگر
مجھ کو روکے رکھا الزامِ جفا کے ڈرنے
پھر دل وعقل کا چلتا ہی نہیں زور کوئی
آنکھ لگ جائے کسی سے جو محبت کرنے
شاد ان سر پھری موجوں کی خوشی کی خاطر
مسترد کتنے کناروں کو کیا ساگر نے
شمشاد شاد
9767820085
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں