*غزل*
*آفتاب عالم قریشی*
*کبھی کسی کی دلآزاری ایسے بھی نہیں کی*
*کہ جب ملے ہیں ملاقات سرسری نہیں کی*
*نبھی ہے جتنی بھی جس سے، نبھی ہے خوب اپنی*
*ہمیشہ دل کی لگی کی ہے دل لگی نہیں کی*
*گلی سے آج وہ چُپ چاپ ایسے گزرا ہے*
*نظر اُٹھا کے نہیں دیکھا بات بھی نہیں کی*
*اِسی اصول پہ گزری ہے زندگی اپنی*
*بنا ہے دوست جو، پھر اُس سے دشمنی نہیں کی*
*بدن کو آگ لگا لی میانِ شب ہم نے*
*زمانہ یہ نہ کہے ہم نے روشنی نہیں کی*
*عداوتیں بھی ہیں پالِیں، تو اک وقار کے ساتھ*
*عدو کے مرنے پہ ہم نے کوئی خوشی نہیں کی*
*یہ اور بات کہ دنیا نے واہ واہ کہا*
*بیان درد کیے ہم نے شاعری نہیں کی*
*تمام عُمر دعائیں دِیں ہم نے، ہر اِک کو*
*مگر کسی کے لیے بددعا کبھی نہیں کی*
*ہمارے سر میں سفیدی ہے کس لیے عالم*
*ابھی تو ہم نے محبت بھی آخری نہیں کی*
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں