★ درسِ قرآن ★
اور جب ان پر عذاب کی سختی پڑی تو کہنے لگے: اے موسیٰ! تیرے پروردگار نے تجھ سے( نبوت کا) جو عہد کیا ھے تو اس کی بناء پر ھمارے لیے دعا کر. اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ھم تیرے معتقد ھو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ تیرے ساتھ چلے جائیں ـ لیکن پھر جب ایسا ھوا کہ ھم نے ایک خاص وقت تک کے لیے کہ (اپنی سرکشیوں اور بدعملوں سے) انھیں اس تک پہنچنا تھا، عذاب ٹال دیا تو دیکھو! اچانک وہ اپنی بات سے پھر گئے ـ (سورہ الاعراف ۱۳۴-۱۳۵)
..................................................................
ان ایات میں فرمایا " ایک خاص وقت تک کے لیے کہ انھیں اس تک پہنچنا تھا " یعنی ایک آنے والا وقت تھا جس کی طرف وہ اپنے اعمال کے ذریعے بڑھ رھے تھے اور بالآخر پہنچنے والے تھے ـ
یہ آنے والا وقت کونسا تھا؟ ان کے ظلم و فساد کا آخری نتیجہ کہ خدا کے قانون جزا نے اس طرح کے نتیجہ کے لیے جتنی مقدار فساد عمل کی ٹھیرا دی ھے جب وہ مہیا ھو گئی تو نتیجہ ظہور میں آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر ھلاک ھو گیا ـ
یہی ظہور نتائیج کا وقت ھے جسے قرآن نے امتوں کی "اجل" سے تعبیر کیا ھے چنانچہ اسی سورت کی آیت ۳۴ میں اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے ـ
اس سے معلوم ہوا ھر جماعت اپنے اعمال کے ذریعے ایک خاص نتیجے تک پہنچتی رہتی ھے جو اس کی مقررہ اجل ھے ـ اگر اعمال نیک ھوتے ہیں تو یہ اجل فلاح کی ھوتی ھے، برے ھوتے ھیں تو ھلاکت کی ھوتی ھے ـ
فرعون کی ھلاکت اور بنی اسرائیل کی وراست: قانونِ الہیٰ یہ ھے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر و کمزور سمجھتی ھیں ایک وقت آتا ھے کہ وھی شاھی و جہاں داری کی وارث ھو جاتی ھیں ـ
مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۸۸-۸۹)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں