*خود کو سزا مت دیں*
DON'T *DIG* YOUR OWN *GRAVE* .
*ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *ابرش نور* گلوبل ہینڈز
*شہنشاہ وقت نے حالات و واقعات کے پیش نظر فیصلہ کیا کہ کسی دانا ایماندار اور درویش طبیعت انسان کو اپنا وزیر خاص بناوں جو سلطنت کے معاملات میں خفیہ طور پر میرا معاون ہو ۔ اس خفیہ ارادہ کو سر انجام دینے کے لیے سلطنت بھر سے ایسے لوگوں کو چنا گیا جن کی ذہانت درویشی ایمانداری اپنے اپنے علاقے میں مشہور تھی ۔* بادشاہ کو ایک درویش کی طبیعت داناٸی بہت پسند آٸی ۔ بادشاہ نے درویش کو کہا جاو سب سے پہلے بازار کے معاملات پر نظر ڈالو اور دکانداروں کے تولنے والے ترازو اور جن پتھروں سے وہ تولتے ھیں وہ چیک کرو کیونکہ کم ناپ تول کی وجہ سے پہلی قومیں ہلاک ہوٸی ہیں *۔درویش نے پہلے دن ہی بازار کا دورہ کیا اور سیدھا ایک دکاندار کے پاس جاپہنچا اور خفیہ طور پر چیک کیا تو معلوم ہوا کہ یہ شخص ہر چیز کے تول میں کم تولتا ہے ۔ درویش نے اسے سلام کیا تو اس نے درویش کو فقیر سمجھ کر سلام کا جواب بھی دیا اور اپنی پریشانیوں کی ایک لسٹ سنا کردعا کی درخواست کی* ۔ درویش نے کہا اللہ تیرے ساتھ انصاف کرے اور آگے چل دیا ۔ کچھ دور جا کر بازار کی ایک اور دکان کے قریب جا رکا یہ ایک قصاب کی دکان تھی ۔ *درویش نے اس کے تول کا بھی جاٸزہ لیا اور پھر اس کے قریب جا کر کہا میاں سلامتی ہو تم پر کیسی گزر رہی ہے قصاب نے سلام کا جواب دیا اور کہا بزرگوار مت پوچھیے دل کرتا ہے یہی چھری اپنے کلیجے میں ڈال دوں اور دنیا سے چلا جاوں ۔* درویش نے کہا ارے نادان اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اللہ تیرے ساتھ انصاف کرے ۔اب درویش مایوس حالت میں ایک اور دکاندار کے قریب جا کھڑا ہوا دیکھا اس کا ناپ تول پورا ہے اور وہ ہر گاہک سے بہت مسکرا کر بھی بات کر رہا ہے آنے جانے والے کو دعا دے رہا ہے اور دعاٸیں سمیٹ بھی رہا ہے ۔ *درویش اس کے قریب گیا اور جا کر سلام دعا کی پھر پوچھا سناو میاں زندگی کیسی گزر رہی ۔ دکاندار نے کہا جناب آپ کی دعا اللہ کے کرم اور نبی رحمت ﷺ کی نظر سے بہت بہت پیاری ہے ۔* درویش نے کہا اور گھر بار کے حالات کیسے ہیں ۔ *دکاندار فورا بولا جناب وہ بھی الحَمْدُ ِلله اللہ کی نعمتیں ہی نعمتیں ہیں اولاد تابعدار ہے بیوی وفا دار ہے زندگی خوشحال ہے کاروبار شاندار ہے ۔* درویش نے واپس شاہی محل کا راستہ لیا اور بادشاہ سے جا ملاقات کی ۔ بادشاہ نے کہا سناو درویش کیسا رہا آج کا معاملہ ۔ کتنے معاملات حل کیے کیا دیکھا کیا پایا کچھ سناو۔ درویش نے کہا بہت سے دکاندار کم ناپ تول کرتے ہیں۔ بادشاہ یہ سنتے ہی غصے میں آ گیا اور کہا کہ پھر انھیں گرفتار کرکے لائے کیوں نہیں ۔ *ان کو سخت سزا دیتے ۔ درویش نے کہا اللہ تعالٰی انھیں خود سزا دے رھا تھا ان پر دنیا تنگ کردی تھی تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ کوٸی خود سے خود کے وجود سے ہی تنگ ہے کوٸی اولاد کے ہاتھوں ستایا ہوا ہے* ۔ اب ذرا غور کیجیے امیر ہونے نفع ہونے کامیاب ہونے کے بہت سے شارٹ کٹس جو ہم اپناتے ہیں جن میں دوسروں کا حق مارا جاتا ہے ۔ ہم ان راستوں طریقوں سے کتنے کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ یاد رکھیے جسمانی سکون کی خاطر غلط طریقے اپنانے والے ہمیشہ روحانی طور پر بے سکون رہتے ہیں ۔ان کے دل کسی نا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ ظاہرا سب کچھ ہونے کے باوجود ان کی حالت مضطرب ہوتی ہے ۔ *کیا آج ہمارے کچھ یہی حالات نہیں ہیں ؟ ھم نے دنیا کو کس انداز میں اپنایا ہے دنیا سے چمٹے ھوئے ھیں اور آخرت کی فکر ھی نہیں اللہ تعالٰی ھمارے حالات پر رحم فرمائے ۔* معاشرے کا حسن اور ہمارا ذاتی سکون دو ہی نکات کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ایک حقوق اور دوسرا فراٸض ۔ ہماری Duties کسی کے rights ہیں اور کسی کی duties ہمارے rights ہیں ۔ *کوٸی ایک انسان بے ایمانی کرتا ہے اس کا برا اثر اپنی ذات پر تو پڑتا ہے ساتھ ساتھ پورے معاشرے میں ہلچل مچا دیتا ہے۔* کسی بھی دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے کی جانے والی بے ایمانی کا مطلب اپنے لیے اذیت خریدنا ہوتا ہے ۔ خود کو ایسی کسی سزا میں مبتلا مت کریں جو آپ کے سکون کو برباد کر دے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں