عالمی طاقتوں کا نیا کھیل ۔۔۔۔ منکی پاکس
سہیل ارشد
امسال مئی کے
مہینے سے دنیا کے کئی ممالک سے ایک نئی بیماری منکی پاکس کے چند معاملات پائے جانے
کی رپورٹیں آرہی ہیں۔ اب تک تقریبا ً 23 ممالک میں منکی پاکس کے پھیلنے کی خبریں
آرہی ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے عالمی اداریء صحت نے اسے ایک ہیلتھ ایمرجنسی قرار
دے دیا ہے۔
امریکہ میں اس بیماری کے معاملے ہزاروں میں پہنچ چکے ہیں اس لئے امریکہ نے منکی پاکس کو ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کردیا ہے۔
لیکن ہندوستان کے مشہور ڈاکٹر بسواروپ رائے
چودھری نے ایک چشم کشا انکشاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ منکی پاکس دراصل کوئی وبا
نہیں ہے اور یہ عالمی طاقتوں کا نیا کھیل ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب منکی
پاکس۔۔پلانڈیمک 2 میں ایک خفیہ دستاویز کی جانکاری دی ہے۔ یہ دستاویز ان کے مطابق
ایک میٹنگ اور اس میں بنائے گئے منصوبوں کے بارے میں ہے۔ اس دستاویز کے مطابق مارچ
2021 میں دنیا کی 19 شخصیات جو سیاست, میڈیسین اور وباؤں کے شعبے میں سرگرم ہیں
ایک مذاکرے میں شریک ہوئی تھیں۔ یہ مذاکرہ نیوکلئیر تھریٹ اینی شیئٹیو اور میونخ
سیکیوریٹی کانفرنس کے اشتراک سے منعقد ہوا تھا۔ اس مذاکرے میں امریکہ کے چند سابق قانون
ساز, چین کے سرکاری اداروں کے ایک عہدہ دار، ویکسین ساز کمپنی جانسن اینڈ جانسن ,
بل گیٹس کے ادارے کے ایک نمائندے اور جرمنی اور افریقہ سے ایک ایک نمائندے شریک
ہوئے تھے۔ ظاہر میں اس مذاکرے کے انعقاد کا مقصد مستقبل میں پھیلنے والی وباؤں اور
بایولوجیکل خطرات سے نبردآزما ہونے کے طریقوں اور حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ لیکن
مزاکرے کے دستاویز کے مشمولات پر غور کرنے پر کئی طرح کے شکوک و شبہات جنم لیتے
ہیں۔ اس دستاویز میں ایک فرضی ملک برینیا میں مئی 2022 منکی پاکس پھیلنے کی پیشین
گوئی کی گئی ہے اور پھر مرحلہ وار طریقے سے پوری دنیا میں منکی پاکس کے ایک وبا کی
شکل میں پھیلنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ یہی نہیں اس دستاویز میں الگ الگ مرحلے
میں دنیا میں مریضوں کی تعداد اور اموات کی تعداد بھی پروجیکٹ کی گئی ہے۔ ڈیل میں
دنیا میں منکی پاکس کے مرحلہ وار کیسیز اور اموات کی تعداد دی جاتی ہے۔
پہلا
مرحلہ۔ مئی 15, 2022
منکی
پاکس کا حملہ
جون
5, 2022۔۔برینیا میں منکی پاکس کے 1421 کیس ۔۔۔4 اموات
کوئی
انٹرنیشنل وارننگ یا ایڈوائزری جار نہیں ہوگی۔۔
دوسرا
مرحلہ۔۔جنوری 10, 2023 ۔۔ 85 مملک متاثر ۔۔7کروڑ کیسیز اور 13 لاکھ اموات
قومی
سطح پر اقدامات , فوری اقدامات کا اثر
تیسرا
مرحلہ ۔۔ مئی 10, 2023 ۔۔480 ملین کیسیز اور 27 ملین اموات
ایک
دہشت گرد گروپ کے ملوث ہونے کا انکشاف۔
آخری
مرحلہ ۔۔ دسمبر 1, 2023۔ 3۔2 بلین کیسیز,اور 271 ملین اموات
وبا
کے پوری دنیامیں پھیل جانے پر تمام ممالک لاک ڈاؤن کرینگے اور دوسرے احتیاطی
اقدامات کرینگے جو کہ کووڈ۔19 کے دوران کئے گئے۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوگا کی
فرضی ممالک آرنیکا اور برینیا کے درمیان بایولوجیکل جنگ کے دوران ایک دہشت گرد
گروپ ہم خیال سائنسدانوں کی مدد سے لیباریٹری سے وائرس کو حاصل کرکے قومیی تعطیل
کے دوران ریلوے اسٹیشنوں پر چھوڑدینگے جس سے منکی پاکس کا وائرس پھیل جائیگا اور
مسافروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
اس مرحلہ وار بیماری کے پھیلنے اور
اتنی بڑی تعداد میں اموات کی پیشینگوئی سے ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری نے یہ نتیجہ
نکالا ہے کہ یہ دراصل کووڈ۔19 کے بعد عالمی طاقتوں کا ایک اور کھیل ہے۔ اور وہ
مذاکرہ ایک ماک ڈرل تھا۔ اب تک منکی پاکس کے معاملات دستاویز میں کی گئی پیشینگوئی
کے مطابق پھیل رہے ہیں۔ مئی سے اب تک 23 ممالک میں یہ نام نہاد وبا پھیل چکی ہے
اور اس رفتار سے یہ جنوری 2023 تک 85 ممالک میں پھیل جائیگی۔ جس طرح کووڈ ۔19 کے
بارے میں یہ بات پھیلائی گئی تھی کہ اس کا وائیرس چین کے یوہان کی ایک لیباریٹری
سے لیک ہوا تھا اسی طرح منکی پاکس کے باری میں بھی لیباریٹری سے وائرس کے لیک ہونے
کی بات کہی جائے گی۔ اگر مذاکرہ صرف کسی وبا کے پھیلاؤ کے امکانات اور اس سے نپٹنے
کی حکمت عملی بنانے پر تھا تو پھر تاریخ وار کیسیز اور اموات کی پیشین گوئی کیسے
کی گئی اور یہ کیسے کہہ دیا گیا کہ کوئی دہشت گرد تنظیم اس میں ملوث ہوگی۔
اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
جو ممالک لاک ڈاؤن کرینگے ان ممالک میں کیسوں کی تعداد کم دکھائی جائیگی اور جو
ممالک لاک ڈاون نہیں کرینگے ان ممالک میں کیسوں کی تعداد زیادہ دکھائی جائے گی۔ اس
کا مقصد ان ممالک پر لاک ڈاؤن لگانے کے لئے دباؤ ڈالنا ہوگا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ منکی پاکس کے
علاج کے لئے ٹی پاکس نام کی دوا بھی ایجاد کر لی گئی ہے۔ برازیل میں منکی پاکس کے
مریضوں پر اس کا استعمال بھی ہونے لگا ہے جبکہ اس کے کارگر ہونے کے ثبوت بہیں ہیں۔
ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری اس دوا کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
" یہ ٹی پاکس حقیقت میں ایک خطرناک دوا ہے جو کسی بھی شخص کی
موت کی ذمہ دار ہوسکتی ہے۔ جب ٹی پاکس کی منظوری کے لئے کلینیکل ٹرائل کے بارے میں
پوچھا گیا تو ایف ڈی اے کا جواب نفی میں تھا۔ ایف ڈی اے کے پاس یہ ثابت کرنے کے
لئے اعداد وشمار نہیں تھے کہ یہ دوا انسانی صحت کے لئے مفید ثابت ہوگی یا یہ کہ یہ
منکی پاکس کے علاج میں کتنی مؤثر ہوگی۔ "۔
ڈاکٹر چودھری نے یہ بھی انکشاف اپنی
کتاب میں کیا ہے کہ عالمی سطح پر اخبارات اور ٹی وی چینل منکی پاکس کے مریضوں کے
ہاتھوں کی جو تصویریں خبروں کے ساتھ شائع کررہے ہیں وہ حقیقی مریضوں کے نہیں ہیں
بلکہ آرکائیو سے لی گئی ہیں یعنی پرانی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹایمس آف انڈیا نے مئی
22, 2022 کو وہ تصویر شائع کی جبکہ وہی تصویر دی سن اخبار نے 17 ستمبر 2018 کو
شائع کی تھی۔ بی بی سی نے اسی تصویر کو 21 دسمبر 2017 کو شائع کی تھی۔ اس کا مقصد
عوام میں یہ تاثر دینا ہے کہ ہندوستان میں اس مرض کے حقیقی مریض ہیں اور یہ تصویریں
انہی مریضوں کی ہیں۔ اس کا مقصد عوام میں خوف و دہشت پھیلانا ہے۔
اردو اخبارات میں بھی اس طرح کی خبریں
اور مضامین شائع کئے جارہے ہیں تاکہ عوام کے ذہن کو ایک بڑی وبا کے لئے تیار کیا
جا سکے۔ عوام کو لاک ڈاؤن، سماجی دوری، پی پی ای کٹ اور سینیٹائیزر کے استعمال کا
مشورہ دیا جارہا ہے۔ این ٹی آئی کی میٹنگ میں ویکسین ساز کمپنی جانسن اینڈ جانسن
اور بل گیٹس کے ادارے کے نمائندے کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب منکی
پاکس کے لئے بھی ویکسین دی جائے گی۔
اس کے لئے ٹسٹنگ کیٹ چین میں تیار
ہوچکی ہے اور مختلف ممالک کو سپلائی بھی کی جارہی ہے۔ مشتبہ افراد کی اس ٹسٹنگ کٹ
سے جانچ کی جائیگی اور جو لوگ پازیٹو ہونگے انہیں انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا جن
مراحل سے گووڈ پازیٹیو ہونے پر گزرنا پڑتا تھا۔اس ٹیسٹنگ کٹ کی قیمت ڈیڑھ لاکھ
روپئے ہے۔ ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری نے ایک کئٹ خریدی اور ان کی ہی ایک رفیق کار
ڈاکٹر نمیتا گپتا نے ٹیسٹ کرایا۔ پہلی بار میں تو وہ نگیٹیو آئیں مگر کئی بار ٹیسٹ
کرانے پر وہ پازیٹیو آگئیں۔ اس تجربے سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ٹیسٹنگ کٹ اس طرح سے
ڈیزازئن کی گئی ہے کہ دس بارہ افراد میں ایک پازہٹیو آئے گا اور ایک صحت مند آدمی
کو منکی پاکس کا مریض قرار دے دے گا۔ یہی طریقہ کووڈ کی ٹسٹنگ میں اختیار کیا گیا
تھا ۔یہ ٹسٹنگ سسٹم عام فلو اور کووڈ کے وائرس میں فرق نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اسی
ٹسٹنگ کی بنا پر لاکھوں افراد کو کووڈ قرار دے دیا گیا۔
ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری کے اس
انکشاف کے بعد عوام۔کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ کووڈ کے دوران تکلیفیں, سختی
اور معاشی بحران سے گزرنے کے بعد ایک بار پھر اسی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا چاہتے
ہیں؟ عزیزوں کی موت، معاشی تنگی اور روزگار کے جانے کا درد سہنا چاہتے ہیں اور کیا
لاک ڈاؤن میں سری لنکا کی راہ پر اپنے ملک کو اور اپنے کنبے کو دیکھنا چاہتے ہیں
؟۔ اگر نہیں تو عالمی طاقتوں کے اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیں۔
٭٭٭٭٭
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں