نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گور غریباں ۔ نظم طبا طبائی ۔ انگریزی شاعر طامس گرے کی نظم ایلیجی کا ترجمہ

 نظمؔ طباطبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گورغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ ’’گورغریباں ‘‘ کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسکی ادب اردو کی بلند پایہ منظومات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ بقول پروفیسر سروری کے یہ ان چند ترجموں میں سے ایک ہے جو اصل سے بڑھ گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک اٹھا ہے ۔


گور غریباں – علی حیدر نظم طباطبائی
۱
وداعِ روزِ روشن ہے گجر شامِ غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم گھر کی طرف کس شوق سے اُٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
۲
اندھیرا چھا گیا دُنیا نظر سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اُٹھا کر آ نکھ اُدھر اِک ہوُ کا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جرس کی دور سے آواز آ تی ہے کہیں پیہم
۳
کبھی اک گنبدِ کہنہ پہ بومِ خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکووؑں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دُنیا سے الگ اک گوشہؑ عزلت میں ہوں پنہاں
کوئی پھر کیوں قدم اِس کنجِ تنہائی میں دھرتا ہے
۴
قطار اک سامنے ہے مولسریوں کے درختوں کی
وہاں قبریں ہیں کچھ مِٹیّ کے جیسے ڈھیر ہوتے ہیں
ہر اک نے مر کے بس دوگز کفن گز بھر زمیں پائی
بسانے والے جو اِس گاؤں کے تھے سب وہ سوتے ہیں
۵
نفس بادِ سحر کا نالہِؑ پر درد بلبل کا
ہوے بیکار سب اُنکو اُٹھا سکتا نہیں کوئی
رہی بے فائدہ مستوں کی ہوُ حق شور قلقل کا
ہیں ایسے نیند کے مارے جگا سکتا نہیں کوئی
۶
نہ چولہے آگ روشن ہے نہ اب اُنکے گھڑے پانی
نہ گھر والوں کو اب کچھ کام ہے فکرِ شبستاں سے
نہ بی بی کو سرِ شام انتظار اب ہے نہ حیرانی
نہ بچے دوڑتے ہیں اب کہ لپٹیں آ کے داماں سے
۷
وہی ہیں یہ جنہیں وقتِ درو مہلت نہ تھی دم بھر
وہی ہیں ہاتھ چلتے رہتے ہی تھے بیشتر جن کے
وہی ہیں یہ جنھوں نے ہل چلائے گیت گا گا کر
بڑے سرکش درختوں کو گراتے تھے تبر جن کے
۸
نہ دیکھیں حال اِن لوگوں کا ذلت کی نگاہوں سے
بھرا ہے جن کے سر میں غرّہؑ نوّابی و خانی
یہ اِنکا کاسہ سر کہہ رہا ہے کج کلاہوں سے
عجب ناداں ہیں وہ جنکو ہے عجبُ تاجِ سلطانی
۹
نہیں شایانِ فخر و ناز و نوبت اور نقاّرہ
جو نازاں جاہ و ثروت پر ہیں اُن پر موت ہنستی ہے
وہ ساعت آنے والی ہے نہیں جس سے کوئی چارہ
کہ فانی ہے جہاں ہر اوج کا انجام پستی ہے
۱۰
نظر آتے نہیں کتبے مزاروں پر تو کیا غم ہے
چراغاں اور صندل اور گل و ریحاں نہ ہوں تو کیا
نہیں نمگیرہ و کمخواب کی چادر تو کیا غم ہے
جو خوش آہنگ کوئی قاریِ قرآں نہ ہو تو کیا
۱۱
بناتے ہو بہو تصویر اگر مدفن پہ رکھنے کو
پلٹ کر اِس سے کچھ نکلی ہوئی سانس آ نہیں سکتی
دعا ہو، فاتحہ ہو، مرثیہ ہو، آہ و زاری ہو
کوئی آواز اِنکے کان ہی تک جا نہیں سکتی
۱۲
خدا جانے تھے اِن لوگوں میں کیا کیا جوہرِ قابل
خدا معلوم رکھتے ہوں گے یہ ذہنِ رسا کیسے
خدا ہی کو خبر ہے کیسے کیسے ہوں گے صاحب حل
خدا معلوم ہونگے بازوئے زور آزما کیسے
۱۳
زمانے نے مگر کوئی ورق ایسا نہیں اُلٹا
کہ بارِ فکر سے مہلت یہ پاتے سر اُٹھانے کی
مصیبت نے طبیعت کی روانی کو کیا پسپا
کہ بار آنے نہ پائی جوہرِ ذاتی دِکھانے کی
۱۴
بہت سے گوہرِ شہوار باقی رہ گئے ہونگے
کہ جنکی خوبیاں سب بہہ گئیں تہہ میں سمندر کی
ہزاروں پھول دشت و دہر میں ایسے بھی کھلے ہونگے
کہ جنکے مسکرُانے میں خوشبو مشک اذفر کی
۱۵
یہہ صاحب عزم ہیں گو رزم کی نوبت نہیں آئی
حکومت اپنے قرئے میں کی لیکن دوست دشمن پر
وہ فردوسی ہیں یہ جنکی زباں کھلنے نہیں پائی
وہ رستم ہیں نہیں سہراب کا خوں جنکی گردن پر
۱۶
مقدر نے اِنہیں مصروف رکھا قبلہ رانی میں
وگرنہ حکمرانی کا بھی جلوہ یہ دِکھا دیتے
عجب کیا شہرہؑ آفاق ہوتے خوش بیانی میں
اور اپنے کارنامے اہلِ عالم کو سنا دیتے
۱۷
رہے محروم نیکی سے بچے ہر اک برائی سے
نہ زورِ مردم آزاری نہ شورِ فتنہ انگیزی
نہ دولت کی طماع میں بے گناہوں کے گلے کاٹے
نہ کی خلقِ خدا کے ساتھ بے رحمی و خونریزی
۱۸
نہ صحبت میں امیروں کی کبھی خونِ جگر کھایا
نہ اونٹھایا لہو اپنا کبھی جھوٹی خوشامد سے
نہ ملَ کے روغنِ قاز آتشِ نخوت کو بھڑکایا
کہ جس سے خود پسندوں کا تحیرّ بڑھ چلے حد سے
۱۹
الگ ہر نیک و بد سے دور دنیا کے مکائد سے
گئے بیگانہ وار اور خلق میں بیگانہ وار آئے
رہے محفوظ اِبناےؑ زمانہ کے مفاسد سے
قدم راہ توکلّ سے کبھی ڈگنے نہیں پائے
۲۰
نہ دیکھ اِن اُستخواں پاےؑ شکستہ کو حقارت سے
یہ ہے گورِ غریباں اک نظر حسرت سے کرتا جا
نکلتا ہے یہہ مطلب لوحِ تربت کی عبادت سے
جو اِس رستے گذُرتا ہے تو ٹھنڈی سانس بھرتا جا
۲۱
لکھے ہیں نام اِن قبروں پہ گو کاواک حرفوں میں
مگر بھولے ہوے کو ٹھیک یہہ رستہ بتاتے ہیں
اِفادہ اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا اگر سونچیں
کہ جو مرنے سے ناواقف ہیں رستہ سیکھ جاتے ہیں
۲۲
جو آیا ہے جہاں میں یاں سے جانا ہے اُسے اک دن
یہ ہونا ہے کوئی چاہیگا دِل میں یا نہ چاہے گا
مگر جاتے ہوے پھر کر نہ دیکھے یہ نہیں ممکن
دلوں سے یاد بھی مٹ جائے یہ حاشا نہ چاہے گا
۲۳
کوئی زانو کسی کا ڈھونڈھتا ہے دم نکلنے کو
کہ دیکھے اشک گرتے چاہنے والوں کے دامن میں
کسی کی ہے یہ خواہش دوست کاندھا دیں جنازے کو
پھر اِس پر فاتحہ کی آرزو ہے کنجِ مدفن میں
۲۴
حقیقت غور سے دیکھی جو اِن سب مرنے والوں کی
تو ایسا ہی نظر آنے لگاانجامِ کار اپنا
اِنہیں کی طرح جیسے مل گئے ہیں خاک میں ہم بھی
یونہی پرسانِ حال ان کا ہے اب اک دوستدار اپنا
۲۵
یہ اک سے ایک دہقانِ کہن سال آ کے کہتا ہے
کہ ہاں ہاں خوب واقف ہیں دیکھا ہے اِسے اکثر
پھر اِسکے بعد دِل ہی دِل میں کچھ غم کھا کے کہتا ہے
کہ ابتک پھرتا ہے آ نکھوں میں پھرنا اِسکا سبزے پر
۲۶
وہ اُسکا نور کے تڑکے اِدھر گلکشت کو آنا
وہ پو پھٹنے سے پہلے آ کے پھرنا سبزہ زاروں میں
وہ کچھ کم دِن رہے اِسکا لبِ جو کی طرف جانا
وہ اُسکامسکرانا دیکھ کر شور آبشاروں میں
۲۷
کبھی ایسی ہنسی لب پر کہ ظاہر جس سے کچھ نفرت
اور اِسکے ساتھ ہی کچھ زیرِ لب کہتے ہوے جانا
کبھی تیوری چڑھائے منہ بنائے رنج کی صورت
کہ جیسے دِل میں صدمہ ہے زباں جس سے ہے بیگانہ
۲۸
غرض کیا کیا کہوں اک روز کا یہ ذکر ہے صاحب
کہ اِس میداں میں پھرتے صبح دم اِسکو نہیں دیکھا
ہوا پھر دوسرا دِن اور نظر سے وہ رہا غائب
خیاباں میں اِسے پایا نہ دریا میں اِسے دیکھا
۲۹
پر اِسکے تیسرے دِن دیکھتا کیا ہوں جنازے کو
لئے آتے ہیں سب پڑھتے ہوےؑ کلمہ شہادت کا
تمہیں پڑھنا تو آتا ہوگا آو پاس سے دیکھو
یہ اِسکی قبر ہے اور یہ کتابہ سنگِ تربت کا
۳۰
اب آغوشِ لہد میں سو رہا ہے چین سے کیسا
گیا آخر میں لیکن یہ جواں ناکام دنیا سے
دِکھایا جاہ و شہرت نے نہ بھولے سے بھی منہ اپنا
پھر ایسے نامرادوں کو بھلا کیا کام دنیا سے
۳۱
ہر اک کے درد و دکھ سے اِسکو رہتا تھا سدا مطلب
ہوا ممکن تو یاری کی نہیں تو اشکباری کی
دیا دستِ تہی کے ساتھ طینت میں کرم یارب
میں تیری شان کے قربان کیا اچھی تلافی کی
۳۲
خدا بخشے بس دوست کا رہتا تھا وہ جویا
تو نکلا دوست اک آخر خدا وندِ کرم اِسکا
اب اسکے نیک و بد کا ذکر کرنا ہی نہیں اچھا
کہ روشن ہے خدا پر عالمِ امید و بیم اِسکا


There are many translations in Urdu which are done with the English approval of the poem Tabatbai, but no one could reach the level of the time which is translated by the Eligy Elegy of England's famous poet Tamas Gray's translation by ′′ Gorghariban The secret to the success of Gorgiriban ′′ is that Mr. Nazem has translated the meaning and has full care of the Urdu language methods and local methods and local environment. Despite not being translated, all the qualities of Eliji are present. If this If the word translation is not used for, it can be counted as the high-base approval of the classic literature in Urdu. According to Professor Sarori, it is one of the few translation that has increased from the original. In this whole poem, the pearls of words are the pearls of words. In this whole poem, the pearls of words were spread that the beauty of poetry is shining


Gore Giriban – Ali Haider poem Tabatbai
1
The day of the day is bright, the evening of the poor is bright.
The caravans returned from the pastures of the tongue.
How does the step of the house rise with the interest of the door?
This is the desertedness of me and the birds of the nest.
2
Darkness has covered, the world hides from the eyes.
Wherever you look, lift your eyes and there is a world of united air.
Mugs but some go bherwen sings timelessly
The sound comes from the era of jars somewhere.
3
Sometimes on a dome of a dome, the boom of Khanma is deserted.
Looking at the sky, he stops the office of the complaints.
That I am in a place of respect, different from the world.
Why does someone step in this loneliness?
4
The queue is in front of the trees of Mulsari.
There are graves some piles of clay
Everyone died and found a shroud full of ground.
Those who were from this village sleep
5
The soul of Sehri, the pain of Nightingale on the drain of Sehri
Everyone is useless, no one can pick them up.
There is no use of the useless people, the right of the noise of the qulqil
No one can wake me up by sleeping like this
6
Neither the fire is lit nor their pitcher water
Neither the family members have any work to worry about the night.
Neither Bibi is waiting for the evening nor is she surprised
Neither the children run now that they come and come and hug them
7
They are the ones who did not have any time for time.
They are the same, whose hands used to walk.
They are the ones who made the hill by singing songs.
Whose tabar used to drop the very rebellious trees
8
Don't look at the condition of these people with the eyes of humiliation
Whose heads are full of poor Nawabi and Khani
This is their Casa sir saying with crooked writings
Those who have a strange crown of Sultani are strangely innocent
9
Not the pride, pride, pride and view.
Death laughs at those who are proud of Jah and Sarwat
That hour is coming, which has no choice.
That's perishable where the end of every oj is depression
10
If you can't see the books of shrines, then what is the sorrow?
What if there are no lights, sandalwood and Gul and Rehan
If there is no sheet of Namgira and Kamgirah, then what is
What if there is no happy reader of Quran
11
If you make a picture to keep it on the burial
No breath can come back from it
May it be prayer, Fatiha, Martia, Sigh and humility
No voice can reach their ears
12
God knew what was the essence of these people
God must know how this mind is.
Only God knows how the solution will be.
God will know how to test your arms
13
The time has not overturned any cover like this
That they get time to raise their heads from the burden of worry.
Trouble turned back the flow of nature
I could not come again to show my personal essence.
14
There will be many gems left.
Those whose good deeds all flowed in the bottom of the sea
Thousands of flowers will bloom in the desert and darkness like this too.
Those whose smile has the fragrance of Musk Azafar
15
This sir is a determination, even though the condition of rituals has not come.
The government was in its own place but the friend is on the enemy
They are Firdausi whose tongues could not be opened
They are not the rustam, whose blood is on their neck.
16
Fate kept them busy in Qibla Rani
Otherwise they would have shown the glory of the ruling too.
What a strange city of Afaq would have been in good speech
And they would have told their deeds to the world.
17
Stay deprived of good deeds and avoid every evil.
Neither the census of pain nor the noise of sedition
Don't cut the throat of innocent in the hope of wealth
Kinship and bloodyness with the creation of God.
18
Never ate the blood of the rich in sex.
Never raised my blood from false flattery.
He did not meet and burned the fire of light.
That which increases the respect of self-loved ones.
19
Separate from every good and bad, away from the world's abode.
Stranger attacks and strangers came in the world
Be safe from the mischief of the time.
You could never move from the path of trust.
20
Don't look at the defeated with contempt.
This is the white of poor people, keep a glance with regret.
This meaning comes out from the worship of the tablet of Turbat
If you pass this path, fill the cold breath.
21
Names are written on these graves in words
But they show the right path to the forgotten.
What would be more beneficial than this if you think
Those who are not aware of dying learn the way
22
The one who has come to the world, he has to go from here one day.
This has to happen whether someone wants it in the heart or not
But it is not possible if you don't look at it again while leaving
Even the memory should be erased from the hearts, it does not want to be the same.
23
Some young man is looking for someone to die.
That I may see tears falling in the feet of those who love me
Someone has this wish that friends should beat the funeral.
Then there is a desire for Fatiha on this in the Kanj of Madafan.
24
See the reality of all these dead people carefully.
So this is how the result of our car looks.
Like them, we are also found in the dust
This is how they are questioned, now a friend of mine
25
He says one by one year
Yes, yes, they are well familiar. I have seen him often.
Then after that the heart eats some sorrow in the heart and says
He still wanders in his eyes on his greenery.
26
Come here to the garden in the morning of his light
Come and roam around in greenery before it exploded
He remained for a few days to go towards his lips
Seeing her smile in the noisy waterfalls
27
Sometimes such a smile on the lips that apparently hate something
And with that go saying something under lips
Sometimes you make a face of sorrow with a preparation.
As if the heart is shocked, the tongue is stranger to which
28
So what should I say, this is the mention of one day sir
I didn't see him wandering in this field in the morning.
It happened again the second day and he disappeared from sight
I didn't find him in Khayaban nor saw him in the river
29
But on the third day I see the funeral
Everyone comes with reciting the Kalima of martyrdom.
You must know how to read, come and look closely
This is his grave and this book is of the stone of Turbat
30
Now he is sleeping in his arms, how is he with peace?
At the end, but this young man left the unsuccessful world
Jah and fame showed his face even if he did not forget
Then what is the use of this world to do with such unsuccessful people
31
He used to live with everyone's pain and sorrow forever.
If it is possible then it is of friendship, if not of tears.
O God, I have mercy on you with your hand
I sacrificed for your glory, what a good compensation.
32
May God forgive, only a friend was left with that Joya
You turned out to be a friend, at last God's grace
Now it is not good to mention his good and bad.

That the world of hope and hope is bright on God

 

.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...