نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امرود کے فائدے از افشین حسین بلگرامی

 

امرود

افشین حسین بلگرامی

            امرود جسے انگریزی میں (Psidium Guava) گجراتی میں جام پھل یا پیٹر‘سنسکرت میں درڑھ بیج اور مرہٹی زبان میں پانڈ ہرے کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔جبکہ اسپینش زبان میں گوائے یابا (Guayaba) فرنچ زبان میں گویا ویئر (Goyavier) میکسیکو‘وسطی اور جنوبی امریکہ میں بسنے والے بہت سے انڈین قبائل سے تعلق رکھنے والے باشندے امرود کو پچھی (Pichi) پوش (Posh) اینانڈی (Enandi) وغیرہ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

            منطقہ حارہ (Tropical) کے علاقوں میں پایا جانے والا یہ پھل گول اور ناشپاتی کی شکل رکھتا ہے۔اس کے بیرونی حصے کا رنگ گہرے سبز سے لے کر زردی مائل سبز تک ہوتا ہے۔یہ حصہ بعض اقسام کے امرودوں میں ملائم اور ہموار ہوتا ہے جبکہ کچھ اقسام کے امرودوں کا بیرونی حصہ سخت‘کھردرا اور خشک ہوتا ہے لیکن امرود کی ہر قسم میں یہ خوبی مشترک ہے کہ اس کی بیرونی جلد چمکتی ہوئی رنگت رکھتی ہے جو اسے پسند کرنے والوں کو اپنی جانب راغب کرتی محسوس ہوتی ہے جبکہ اس کی خوشبو کی تو بات ہی نرالی ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور ہر ایک پہ اس مزیدار پھل کی موجودگی آشکار کرتی محسوس ہوتی ہے۔


           
امرود کا درخت 6-8 فٹ کے چھوٹے درخت سے لے کر 33 فٹ تک لمبا ہوتا ہے جو جھاڑی دار شاخوں پر مشتمل ہوتا ہے۔تانبے جیسی رنگت کا حامل‘چکنا و ملائم تنا جو کھرچنے پہ اندر سے سبزی مائل دکھائی دیتا ہے۔امرود کے پیٹر کی واضح نشانی سمجھا جاتا ہے۔ہرے بھرے گول و نیم بیضوی ساخت کے حامل امرود کے پتوں کو جب مسلا جاتا ہے تو یہ نہایت تیز خوشبو دیتے ہیں۔

یہ پتے اُوپری جانب سے چکنے جبکہ پتوں کی نچلی سطح قدرے کھردری ہوتی ہے پتے کی درمیانی لکیرنس یا (Vein) کے گرد چھوٹی چھوٹی کئی ایک ہموار و متوازی نسیں (Veins) جڑی ہوتی ہیں۔جڑی ہوتی ہیں 4-5 پنکھڑیوں والے نازک سفید پھول لگتے ہیں جو کبھی گچھوں کی صورت میں اور اکثر الگ الگ ہی نکلتے ہیں امرود کا گودا سفید اور پھل کے مرکزی حصے پر زردی مائل سفید ہوتا ہے اکثر گودا گلابی رنگت کا حامل بھی ہوتا ہے گلابی گودے والے امرود کی خوشبو ہی کچھ الگ سی اور بھینی بھینی ہوتی ہے۔

            دونوں قسم کے گودے والے امرودوں کے وسطیٰ حصے میں گول گول سخت چھوٹے سائز کے بیج بھرے ہوئے ہیں جن کی تعداد قسم کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے۔
           
امرود کو ہمیشہ پکی ہوئی حالت میں ہی استعمال کے قابل سمجھا جاتا ہے کیونکہ کچا امرود پھیکے سیٹھے و اکساہٹ مائل ذائقے کا حامل ہوتا ہے جو زبان و دہن پہ دیر تک رہنے والا ناخوشگوار ذائقہ چھوڑ جاتا ہے۔

لہٰذا چھترے ہوئے پتوں والے جھاڑ نما امرود کے درختوں سے اس کا پھل اُسی وقت (ایک ایک کرکے) احتیاط سے توڑا جاتا ہے کہ جب اس کے پکنے کا اندازہ کر لیا جاتا ہے۔بد احتیاطی سے توڑنے کی وجہ سے کچے امرودوں کے بھی درخت سے گرنے کا خدشہ رہتا ہے لیکن صنعتی پیمانے پہ لگائے جانے والے امرود کے باغوں میں امرود نیم پکی حالت میں ہی درختوں سے توڑ لیے جاتے ہیں تاکہ جب انہیں دور دراز علاقوں تک درآمد کیا جائے تو عرصہ 2-3 روز سے لے کر ہفتہ دس دن تک یہ خوب اچھی طرح پک جائیں پر اگر درآمد کرنے کے نقطہ نظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے درختوں سے پکے ہوئے امرود توڑے جائیں گے تو باغ سے منڈی تک کے راستے میں ہی ان پکے ہوئے امرودوں میں کیڑا پڑ جائے گا اور یہ تیزی سے سڑ کر پوری کی پوری کھیپ کو تباہ کر دیں گے لہٰذا اسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لئے درختوں سے نیم پکے یا ادھ کچے ذرا سخت قسم کے امرود توڑے جاتے ہیں۔

انہیں کاربائن لگانے کی ضرورت شاذ ہی پڑتی ہے۔ 
تاریخی اہمیت       
امرود کی تاریخ اور کاشت کے حوالے سے مستند تاریخ غذائی مورخین بتانے سے قاصر ہیں لیکن قریں خیال ہے کہ جنوبی میکسیکو سے لے کر وسطی امریکہ کے بیشتر علاقوں میں سب سے پہلے اسے دیکھا گیا۔1526ء سے امریکہ کے گرم خطوں سے لے کر مغربی امریکہ کے بیشتر علاقوں بشمول بھاماس (Bahamas) برمودا (Bermuda) اور فلوریڈا کے جنوبی علاقوں میں اس کے درخت لگائے گئے۔

            1847-1886 امرود نامی یہ پھل کم و بیش پوری ریاست میں مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔پرتگالیوں اور اسپینی باشندوں نے اس پھل کو مشرقی انڈیا میں متعارف کروایا۔پھر اسے ایشیا اور افریقہ کے براعظموں نے موسم گرما کے پھل کے طور پر اسے قبول کیا۔مصر‘فلسطین‘الجیریا‘فرانس اور مشرق وسطیٰ کے ساحلی علاقوں میں پھر کئی کئی ایکڑ پر امرود کے باغات دکھائی دینے لگے۔

اٹھارویں صدی کے اوائل میں بحیرہ اسود کے راستے جب یہ جزیرہ نما ہوائی پہنچا تو وہاں محض چھوٹے پیمانے پہ اس کے درخت لگائے گئے تھے انیسویں صدی کے اوائل تک یہ پھل پوری دنیا میں اپنی مقبولیت و پسندیدگی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا۔انیسویں صدی کے وسط تک کولمبیا سمیت فلوریڈا اور کیلی فورنیا جیسی ریاستوں میں موجود زرعی تحقیقی مراکز

(Agricultural Research Centres) میں امرود کی پیداوار اور اس پھل کی کوالٹی و اقسام میں اضافے کے لئے ریسرچ کی ابتداء کی جا چکی تھی کیونکہ انیسویں صدی کی شروعات میں ہی امرود ایسے مزیدار پھل کی طلب میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ذائقے کی حامل مصنوعی طریقوں سے تیار کی جانے والی غذائی اشیاء جیسے آئس کریم‘مشروبات اور جیلی وغیرہ یہاں تک کہ 1946ء میں انڈین ٹاؤن میں میامی فوڈ انڈسٹری کی دو درجن سے زائد فیکٹریاں امرود جیلی (Guava Jelly) تیار کر رہی تھیں۔
غذائی اہمیت         
           
امرود میں اتنی کثیر مقدار میں وٹامن C پایا جاتا ہے جو ترش پھلوں (Citrus Fruits) میں پائے جانے والے وٹامن C کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔100 گرام امرود میں 0.2 گرام پروٹین‘0.8 گرام چکنائی‘14.5 گرام معدنی نمکیات 0.01 گرام کاربوہائیڈریٹس‘0.04 گرام کیلشیم 66 گرام آئرن 1.0 گرام فاسفورس 0.03 ملی گرام وٹامن B بشمول وٹامن B2 (ریبوفلاوین) اور 300 ملی گرام وٹامن C پایا جاتا ہے۔

            غذائیت سے بھرپور اس پھل کو بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔امرود کا کچا پھل قبض اور جبکہ پکا پھل قبض کشا ہوتا ہے۔امرود دل کو فرحت بخشتا ہے دل اور دماغ کو قوت دیتا ہے دل کی گھبراہٹ کیلئے مفید ہے‘معدے کو طاقت دیتا ہے اور بھوک بڑھاتا ہے۔امرود زبردست غذا ہونے کے ساتھ ساتھ دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اس کا استعمال خونی بواسیر کے لئے بھی مفید ہے۔

            اس کے پتوں کو تھوڑے سے پانی میں بطور چائے اُبال کر استعمال کرنا نزلہ و زکام کا فوری علاج ہے اور یہ دستوں کی حالت میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔یہ بلاشبہ ایک بہترین و صحت بخش پھل ہے تاہم زائد مقدار میں اس کا استعمال گیس اور بدہضمی پیدا کر سکتا ہے۔اس کے بیج چونکہ سخت ہوتے ہیں اور چکنے گودے سے لپٹے ہونے کی وجہ سے بناء چبائے ہی معدے میں پہنچ جاتے ہیں جو کہ بعض حالات میں معدے میں گرانی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

            جبکہ دانت کے درد مسوڑھوں کی سوجن اور روٹ کیزال تھراپی کرنے والے افراد امرود کو بیجوں سمیت کھانے سے احتراز کریں کیونکہ یہ دانتوں کے خلاء میں پھنس کر یا زبردستی چبانے کی صورت میں دانتوں اور مسوڑھوں پہ انتہائی خراب اثرات مرتب کرکے آپ کو بے پناہ اذیت سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...