This is my twenty seventh poem of this lockdown, entitled "Kuzagar ki Yaad main"(Memory of a Ceramist) . Please stay safe.
Please subscribe to my youtube channel:
کوزوگر کی یاد میں
وہ کوزہ گر .
جو چاک پر گیلی مٹی کو
اپنی انگلیوں کی جنبش سے
کیسے کیسے روپ میں ڈھالتا تھا
میری آن بوجھ پہیلی کے دنوں میں
وہ مٹی کا اک کوزه
خوشیوں کا سمندر لئے ہوتا تھا
چولہے پر چڑھی ہانڈی کو دیکھ کر
شکم کی آگ خود بخود ٹھنڈی ہو جاتی تھی
پنگھٹ پرگھڑوں کی کھنک
دلوں میں سرسوسر باندھتے تھے
دیوالی کی وہ ڈبیا
ذ ہن و دل کے اندھیرے کو روشن کرتی تھی
مولوی صاحب کا وہ خاکی بدهنا
درس احتیاط وحفاظت کے اسباق سکھاتے تھے
دادی ماں کا آب جو
روح کی پیاس بجھاتاتھا
اس کوزہ گر کے ہاتھوں
بھگوان کے بھی کئی روپ نکھرتے تھے
مگر آج
وہ کوزہ گر ٹکٹکی لگا ے
اپنے خاموش چاک کو دیکھ رہا ہے
سوکھی مٹی کا درد جھیل رہا ہے
کہ اب اس کو
گیلی مٹی کا انتظار ہے
جس گیلی مٹی کو
وہ اپنی انگلیوں کی جنبش سے
کئی روپ میں بدلتا تھا
اب وہ گیلی مٹی
اس کے روپ کو بدلنے والی ہے!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں