غزل
ہے ضرورت وقت کی گر کر سنبھلنا سیکھ لو
توڑ دو بیساکھیاں پیروں پہ چلنا سیکھ لو
کم نہیں ہوگی کبھی ان آندھیوں کی سر کشی
اے چراغوں اب ہوا کی زد پہ جلنا سیکھ لو
اور تم کتنا کروگے رہنما کا انتظار
منزلوں کی سمت اب تنہا نکلنا سیکھ لو
اس سے پہلے گردش حالات تم کو توڑ دے
دوستوں حالات کے سانچے میں ڈھلنا سیکھ لو
ہم نے مانا بن نہیں سکتے ہو تم سورج مگر
اک چراغ رہ کی مانند جلنا سیکھ لو
دین و دنیا کا رہے گا ہر توازن برقرار
تم جو سچے راستوں پر کاش چلنا سیکھ لو
خود بخود ہو جائے گا حاصل سکون زندگی
شرط ہے ارشد تمنائیں کچلنا سیکھ لو
محمد ارشد خان رضوی فیروزآبادی
شعبہ اردو سینٹ جانس کالج آگرہ
مکان نمبر 41، گلی نمبر 8 ،
کشمیری گیٹ فیروزآباد 283203
یو. پی. انڈیا 9259589974
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں