غزل
کسی کی جاں تمھیں پیاری نہیں ہے
یہ نادانی ہے ہُشیاری
نہیں ہے
انھوں نے کر دیا ہے
جینا مشکل
جنھیں کوئی بھی دشواری نہیں ہے
مجھے مت روکیے سچ بولنے سے
یہ حق گوئی طرف داری نہیں ہے
کیا ہے وقت نے معذور مجھ کو
یہ مجبوری ہے، لاچاری نہیں ہے
حفاظت جان کی کرنا ہے اچھا
اگرچہِ کوئی بیماری نہیں ہے
فقط مطلب سے اپنانا کسی کو
یہ خودغرضی ہےخود داری نہیں ہے
میں ہوں بازار سے منسوب لیکن
مرا لہجہ تو بازاری
نہیں ہے
اِسے کیسے کہیں گے شاعری ہم
کوئی بھی شعر معیاری نہیں ہے
سخن میں اوربھی صنفیں ہیں فیصل
غزل کہہ لینا فن کاری
نہیں ہے
فیصل قادری گنوری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں