This is my nineteenth poem of this lockdown, entitled "Kagaz Ki Nau" . Please stay at home and stay safe.
نظم ۔۔۔کاغذ کی ناؤ ۔
چلتی جا رہی تھی
بہت تیز چلتی جا رہی تھی
ہواؤں کے ساتھ
اپنا رخ بدلتی جا رہی تھی
مگر اچانک وہ سب
جو ابھی تالیاں بجا رہے تھے
مسکرا رہے تھے
مایوس ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں
کہ جھیل میں کس نے
پھینکی ہے کنکڑی
اور دور تک دائرہ بنتا گیا ہے
اور ہچکولے کھاتی وہ کاغذ کی ناؤ
اپنا وجود کھو بیٹھی ہے
جو پل بھر پہلے
چلتی جا رہی تھی
ہواؤں کے ساتھ
بہت تیز چلتی جا رہی تھی
چلتی جا رہی تھی ۔
ڈاکٹر مشتاق دربھنگہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں