بن کے اب جو شریف بیٹھا ہے
دل میں اس کے بھی تھیف بیٹھا ہے
یہ جو اچھا ہوا میرے دل میں
ایک ذوق لطیف بیٹھا ہے
روح کی پاک و صاف مسند پر
جسم نے کر کثیف بیٹھا ہے
دل کے حجرے میں ایک مدت سے
کوئی سایہ نحیف بیٹھا ہے
میرے دل کے حسین ادارے کا
آج بن کر وہ چیف بیٹھا ہے
دل تو بیٹھا ہے اس طرح گویا
جیسے کوئی ضعیف بیٹھا ہے
کون قافیے کے نحیف کندھے پر
کون لے کر ردیف بیٹھا ہے
دیکھ کر آئینہ یہ لگتا ہے
مجھے میں میرا حریف بیٹھا ہے
ان دنوں جھوٹ کے شکنجے میں
دب کے انور حنیف بیٹھا ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں