نظم۔۔ ۔پال گھر کے شہید سنت بابا کی چٹھی
پریہ کوی
میں جانتا ہوں
آج کی رات پھر تیری
آنکھوں میں کٹی ہوگی
سورج طلوع ہوا ہوگا مگر
تیرگی کہاں چھٹی ہوگی
میری دوڑ تی،چیختی ہوئی تصویر
ہاے ماتم کرتی ہوئی میری تقدیر
حیوان کو شرمندہ کرتی ہوئی
انسانی صورت
مو ک درشک رکشک
اپنی جاں کی خیر مانگتے ہوئے
تم نے جب دیکھا ہوگا
تڑپ تڑپ کر
میری جان کو جاتے ہوئے
میں جانتا ہوں تیری پیڑا
تجھے پریشان کئےہوئے ہوگی
تو کوی ہے ،یہ دریشیہ تجھے
اندر سے لہو لہان کئےہوئے ہوگی
تیری آنکھوں میں پھر لوٹ آئ ہوگی
اخلاق و پہلو کی تصویر
عرفاں کے بندھے ہوئے ہاتھ
رستم کے پاؤں کی زنجیر
میرے پریہ کوی
مجھے دکھ ہے کہ
یہ اپنی ، وہ بستی نہیں رہی
جہان رہتے تھے رحیم و کبیر
بے خوف چلتےرہتے تھے
ہم کنیا کماری سے کشمیر
مگر میرے پریہ کوی
میری تجھ سے یہ ونتی ہے
میرایہ انتم کام کر دینا
میرا یہ پتر عام کر دینا
یہ بستی پرانےہی روپ میں رہے تو بہتر ہے
بھارت ماتا، اپنے سروپ میں رہے تو بہتر ہے
کہ گم تھی جب تک الگ الگ پہچان
یہاں رہتے تھے بس انسان ہی انسان!
میرے پریہ کوی
میرا یہ انتم کام کر دینا
میرا یہ پتر عام کر دینا
******
ڈاکٹر مشتاق احمد
دربھنگہ
مورخہ ۔23 اپریل 2020
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں