غزل
کتنے
گوشے میں جہاں اب بھی خزاں چھائی ہے
فصلِ
گُل سارے گلستاں میں کہاں آئی ہے
خالی
ساغر نہ دکھا تشنہ
دیرینہ
ہوں
میری
رسوائی میں اک دور کی رسوائی ہے
آپ
ہی کہیے کہ لفظوں میں کہاں ممکن ہے
اس
تبسم میں جو تفصیلِ شناسائی ہے
حرم
ودیر کی تحقیق چلی ہے جب سے
دیکھ
ساقی ، تری دہلیز بھی گھبرائی ہے
طلب
مئے کا سلیقہ ہمیں کیوں کر آئے
ہاتھ
پھیلانے کی نوبت تو ابھی آئی ہے
رات
نازاں تھی بہت اپنے اندھیروں پہ مگر
ذہنِ
انساں نظر آیا ہے ،تو شر مائی ہے
شامِ
اقرار و ہ معصومئی باہم صابر
واقعہ
یہ ہے کہ دونوں کو حیاآئی ہے
صابر شاہ آبادی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں