غزل
عظمتِ
شوق پر حرف آنے نہ دو
آگیا دورِ سود وزیاں دوستو
جان
سے بڑھ کے دل کی حفاظت
کرو
عقل ہونے لگی ہے جواں دوستو
حُسن
کی کوئی حد، حدِ آخر نہیں
اس کے الطاف ہیں بے کراں دوستو
وصل
ہی جس کی لے دے کے معراج ہو
ذوق اس کا مکمل کہاں دوستو
اللہ
اللہ رندودں کیافسردگی
میکدے
کی فضا کتنی بے کیف تھی
وہ
تبسم بھری آنکھ کیا اُٹھ گئی
ٹوٹ پڑنے لگی کہکشاں دوستو
آنکھ
ملتے ہی دل کا سکوں مٹ گیا
ان
سے مل کر ہمیں اور کیا مل سکا
اس
طرف حسرتیں ، اس طرف غفلتیں
جان
سی چیز ہے درمیاں دوستو
دل
پہ ہیرے جو بارِ وفا رکھ دیا
پھول پر اس نے سنگِ گراں رکھ دیا
جاں
بلب کر کے میرا تماشہ کیا
حُسن یوں ہی نہیں مہربا ں دوستو
نسبتِ
حُسن صابر جوان سے نہ تھی
میرے احساس میں ہو ش مندی نہ تھی
ہا
ں مگر جب کوئی دل کو تکنے لگا
چونک کر رہ گیا ناگہاں دوستو
صابر شاہ آبادی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں