نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

صادقہ نواب سحر اور ناول کہانی کوئی سناؤمتاشا ..... از رخسانہ سلطانہ،

صادقہ نواب سحر اور ناول ’’کہانی کوئی سناؤمتاشا‘‘
                                                                                                            ڈاکٹر رخسانہ سلطانہ
                        cell : 9739045702
                        write2rukhsar@gmail.com

            صادقہ نواب سحر کا پہلا ناول ”کہانی کوئی سناومتاشا “ جب میری نظر سے گذرا تؤپڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ متاشا اپنی کہانی جس طرح بیان کر رہی ہے وہ دراصل دنیا کؤآئینہ دکھا رہی ہے وہ زمینی ہلچل کؤاپنے فطری انداز میں ایک فطری بہاو  کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ دراصل یہ خوبی کردار کی نہیں صادقہ کا سحر ہے جؤسر چڑھ کر بول رہا ہے یہ اکیسویں صدی کی فعال ؤمتحرک شخصیت ہے جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنے منفرد لب ؤلہجے سے اپنے معاصرین میں الگ پہچان بنائی ۔ان کی تحریر نے سنجیدگی ،متانت اور سادگی بیان کؤنہ صرف منوایا ہے بلکہ سماج کؤایک نئی سوچ عطا کی ہے۔میں قرة العین ، عصمت چغتائی ،صالحہ عابد حسین ،رضیہ سجاد ظہیر ،خدیجہ مستور ،ممتاز شیریں ،عفت موہانی ،رضیہ بٹ ،عطیہ پروین ،مسرور جہاں ،ذکیہ مشہدی اور قمر جہاں اور دیگر کؤپڑھا تھا ۔ان خواتین کے علاوہ اور بہت سی خواتین فن کاروں نے اس میدان میں قدم رکھا لیکن ”کہانی کوئی سناو  متاشا“ جیسی تخلیق فی زمانہ کم نظر سے گذری ہے۔
            آپ کی مطبوعا ت میں ”انگاروں کے پھول“ (شعری مجموعہ) ۲۰۰۲ئ ” کہانی کوئی سناو  متاشا“ (ناول) ۸۰۰۲ ئ جسکا کراچی ایڈیشن شہزاد پبلی کیشن سے ۰۱۰۲ئ میں شائع ہوا ہے۔”مکھوٹوں کے درمیان“ (ڈراما) ۲۱۰۲ئ” خلش بے نام سی“ (افسانوی مجموعہ ) ۳۱۰۲ئ جس دن سے (ناول ) ۶۱۰۲ئ میں منظر عام پر آچکے ہیں اس کے علاوہ ہندی میں ۶۱ متفرق کتابیں ،تیلگؤمیں ”کہانی کوئی سناو  متاشا “ کا ترجمہ انگریزی میں ایک کتاب غزل اینڈ اوڈ (تحقیق) کہانی کؤئی سناو  متاشاکا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے ۔جس کے لیے آپ کؤ۴۲ مختلف ایوارڈ س سے بھی نوازا گیا ہے علاوہ ازیں آپ بیرونی ممالک کے ادبی پروگرامس میں حصہ لیتی رہی ہیں ۔ان کی انہی کارکردگیوں کی وجہ سے انہیں کسی دائرے میں بانٹا نہیں جاسکتا ۔انہوں نے اپنی تحریروں کے متعلق لکھا ہے۔
میں اپنی تحریروں سے بڑی امید نہیں رکھتی ۔ہاں دیانتداری کے ساتھ لکھنا چاہتی ہوں۔اور ہاں میری ایک عجیب ؤغریب خواہش بھی سن لیجیئے ۔جی چاہتا ہے کسی کؤنظر نہ آؤں ۔ صرف میری تحریریں بولیں ۔
            بے شک وہ کہیں نظر نہیں آتیں ۔مگر ان کی تحریریں بولتی ہیں ۔کہانی کوئی سناؤ  متاشا “ عنوان سے میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ امراؤ  جان ادا کی طرح ناول نگار ہی متاشا کی کہانی کہنے کے لیے کہہ رہی ہیں مگر اکیسویں صدی کی متاشا تؤشعور ی ؤغیر شعوری طور پر خود ہی کہانی بیان کرتی چلی جاتی ہے لیکن کہانی کا سحر قاری کؤاپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیتا ۔کہانی ختم ہونے پر قاری سکون محسوس کرتا ہے۔مگر متاشا کے غم میں خود کؤنڈھال پاتا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ کہانی کا جبر ہے یا سماج کا،جسکؤآسمان بنانے والی زمین آج بھی پائمال ہے یہ پائمالی خود اس کی بھی ہے اور آسمان کی بھی ،ناول نگار کی اسی فکری عروج کے متعلق وصیل خان لکھتے ہیں۔
ان کی اکثر تخلیقات فکری عروج اور اثر انگیزیت سے تعبیر ہوتی ہیں ۔ان کے چھوٹے اور سیدھے سادھے جملے نوک قلم سے تیر کے مانند نکلتے ہیں اور براہ راست قلب ؤجگر میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ تجربات ؤروایات کے تسلسل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نام کے اثرات انسانی زندگی پر بڑے گہرے رنگ منقش کرتے ہیں ۔
            بے شک صادقہ نواب سحر کا یہ جادؤبہت گہرا ہے ۔ناول ”کہانی کوئی سناؤ  متاشا “ متاشا ہی کی سوانح حیات نہیں ہے بلکہ آج کے دور کی ہر عورت کی حساس کہانی ہے جس میں جذبات کے بہاؤ  کردار کی داخلی مضبوطی کی گواہی دیتے ہیں ۔ناول کی سرخی اپنی ندرت ؤنغمگی کے ساتھ قاری کؤدعوت ِ مطالعہ دیتی ہے ۔ناول نگار ناول میں کہیںنظر نہیں آتا مگر متاشا کے روپ میں وہ ہر جگہ ہے یعنی ناول کے فن پر اس کی مکمل دسترس ہے انداز بیاں تصنع ؤبناوٹ سے پاک اور حقیقت پر مبنی ہے جس کا ثبوت کہانی کہنے والی متاشا کی حق گوئی ؤبے باکی ہے۔چھوٹے چھوٹے چست جملے یا مکالمے اس ناول کؤآگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔
            ”کہانی کوئی سناؤ  متاشا “ ایک عام سی عورت کی کہانی ہے جس میں گھریلؤماحول ،خاندانی جھگڑے ،عصمت ریزی ،رشتوں کی پائمالی ،خوبصورتی کی بلا،بیٹیوں کے ساتھ ماں باپ ؤدنیا کی بد سلوکی، باپ کا نازیبا سلوک، شک ؤشبہات،مذہبی عقائد ،عصری ماحول ،مختلف شہروں کی وابستگی ۔سوتیلے بچوں کا سلوک ،شوہر کی مشکوک نظریں ،بھائیوں کی نفرت ،رشتوں کی کڑواہٹ کیا کچھ نہیں ہے اس ناول میں اکثر ادیبوں ونقادوں کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے موضوع کؤبارہا بیان کیا گیا ہے اب ہمیں اپنا نظریہ ؤکینوس وسیع کرنا ہوگا مگر میرا یہ ماننا ہے کہ متاشا کی یہ دنیا ان مسائل کؤبیان کرتے ہوئے جس انداز میں ہمارے سامنے آرہا ہے وہ دنیا کا ایسا حصہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔زندگی کے اتار چڑھاؤ  یہیں سے شروع ہوتے ہیں اور یہیں پر ختم ہوتے ہیں ۔جب داخلی دنیا میں تبدیلی نہیں آئی ہے تؤخارجی دنیا کیسے تبدیل ہؤسکتی ہے ۔یہی موضوعات پہلے بھی تھے آج بھی ہیں لیکن یہ ناول عورتوں کی انہیں آہوں اور چیخوں کی گونج ہے جؤہمارے آس پاس گونج رہی ہیں جنہیں آواز صادقہ کی متاشا نے عطا کی ہے یہ کوئی تانیثی ناول نہیں ہے مگر تانیثیت کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جائے تؤبہت سارے ایسے مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں جؤخالص عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں یعنی احساسات ؤجذبات جسے بڑی بے باکی سے ناول نگار نے پیش کیا ہے جیسے
ایسے بچپن میں ممی کا صحت مند جسم تنی ہوئی بھنویں غصے سے بھری نگاہیں ،جانے کن کن باتوں میں سہم جاتی تھی۔چاہے میرا قصور نہ ہؤ،بھائیوں کی غلطی کیوں نہ ہؤ،میری ہی پٹائی تؤکرتیں تھیں ۔پاپا کی موجودگی میں ممی سہمی سہمی سی لگتیں ۔پاپا ممی کؤدیکھتے ہی گالیاں دینے لگتے ۔یہ مجھے اچھا لگتا ۔مجھے ڈرانے والی پاپا سے جؤڈرتی تھیں۔
 ”ان دنوں میں مردوں سے نفرت کا احساس مجھ میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ گھر آکر کوئی صوفے یا کرسی پر بیٹھتا تؤوہ حصہ جھٹک کر صاف کردیتی ،پونچھ دیتی۔
کاکا کا خیال بھوت بن کر مجھے ڈراتا ۔مگر آنکھوں میں آنسؤنہیں آتے ۔کہیں کوئی دیکھ کر سمجھ نہ جائے ۔اس لیے نلکے پر منہ دھوکر جب میں اندر لوٹی تؤدادی کؤاپنی طرف آتے دیکھا۔
            یہ اور اس طرح کے چھوٹے بڑے مسائل جس سے عورتیں زندگی بھر جوجتی رہتی ہیں ۔زمین کی طرح گندگی ،غلاظت کؤاندر بڑے صبر ؤتحمل سے جذب کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کؤپالیتی ہیں۔ان کا یہ ایثار ؤقربانی کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے متاشا کا بھی یہی حال رہا وہ میت کی آشا نہ بن پائی اور زندگی کی آشا میں خود کؤپائمال کرتی رہی ۔کہیں ہمت ہار کر خدا کی پناہ میں چلی جاتی ہے مگر اپنے فطری میلان ،عورت پن کی وجہ سے پھر لوٹ آتی ہے۔مسلسل مسائل کا سامنا کرتے ہوئے سانسوں کی گھٹن کؤپھر زندگی عطا کرتی ہے کیوںکہ وہ عورت ہے یعنی زندگی دینے والی۔اس طرح یہ ناول انسانی جذبے کؤبیدار کرتے ہوئے زندگی کؤایک نیا نظریہ عطا کرتا ہے۔
            ناول کی کہانی ہندؤاور کرسچین کرداروں پر مبنی ہے۔متاشا مرکزی کردار ہے اور اسی کی زبانی بیان ہوئی ہے۔متاشا کٹر وادی ہندؤگھرانے میں پلی بڑھی ہے اس کے پر دادا جگن ناتھ پوری مندر کے شاستری اور ذات پات اور دولت کے لحاظ سے اعلیٰ خاندان تھا اس کے نانا کے پر نانا قنوج کے برہمن اور زمیندار تھے۔پردادا کونوینٹ اسکول کے طالب علم رہ چکے تھے۔اسی لیے اپنے بیٹے کؤبھی اسی تعلیم سے مزین کیا۔لیکن بیٹے نے روایتی انداز چھوڑ کر ولایتی انداز اپنایا اور ایک انگریز لڑکی سے شادی کرکے باپ کے عتاب کا شکار ہوئے گھر سے نکال دئے گئے ادھر نانا کے خاندان میں عیسائی مذہب کؤاپنا لیا جاتا ہے۔فی زمانہ اس طرح کا ماحول اکثر بڑے شہروں میں دیکھنے کؤملتا ہے جس پر ناول نگار کی گہری نظر اور مشاہدہ ہے اس لیے ان کرداروں کی نفسیات ،رہن سہن نہ تؤپورے ہندؤہوتے ہیں اور نہ کرسچین وہی حال متاشا اور اس کے بھائیوں کا بھی نظر آتا ہے۔مثال کے لیے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
میرے نانا کے پر نانا قنوج کے برہمن تھے اور زمیندار بھی ۔پرانے زمانے سے زمینداری چلی آرہی تھی اس زمانے میں وہاںکچھ ایسا رواج تھا کہ عیسائی اپنی پریچنگ سننے کے لیے برہمنوں کؤدعوت دیتے اور وہ اپنے پروچن سننے کے لیے انہیں یعنی ہندؤاور عیسائی اپنے اپنے مذہب کؤسمجھنے کے لیے ایکدوسرے کؤدعوت دیتے ۔میرے نانا کے زمانے تک زمینداری چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔بلکہ آج تک ایسا رواج ہے کہ یہاں برہمن گوتر کے عیسائی لڑکا اور لڑکی ڈھونڈ کر شادی کی جاتی ہے ۔ریت رواج بھی کھچڑی ہوگئے ہیں۔
            متاشا کی پہلے منگنی یوراج سے ہوتی ہے یوراج کے غصے کی وجہ سے متاشا منگنی توڑ دیتی ہے اور بھرت جؤایک آدی واسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس کے رشتے سے انکار کرتی ہے اور پربھاکر سے محبت کرنے کی غلطی کر بیٹھتی ہے جس کی پاداش میں پربھاکر کؤمتاشا کے والد کی پٹائی سہنی پڑتی ہے اور موریشور کا کا کا سچ بھی پربھاکر کؤمعلوم ہوتا ہے جیسے

ایک دن میں نے مجنؤسے دیوندر کے ذریعے دباؤ  دلوا کر پربھاکر سے ملنے کی کوشش کی۔ وہ گارڈن میں آیا اور مجھے دیکھتے ہی غصے سے بولا۔کیوں بلایا ہے؟ میرے چپ رہنے پر مجھے گھورتے ہوئے بولا ۔تم جیسے دکھائی دیتی ہؤویسی ہؤ” نہیں تم نے مجھے اپنے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایاتھا۔۔۔میں تؤپورا پھنس گیا تھا۔
            اس پر پربھاکر یا د بن جاتا ہے پھر سمیر اس کی زندگی میں آتا ہے لیکن وہ اسے بھی نظر انداز کرتی ہے اس کے بعد گھر سے دربدری کے بعد کولکاتہ ،علی گڈھ ،ممبئی جیسے شہروں میں اس کی زندگی کے دن گذرتے ہیں ۔ممبئی میں خود کؤبکتے دیکھ بھاگ کھڑی ہوتی ہے وہاں ادھیڑ عمر ۴۴سال کے گوتم سے ملاقات ہوتی ہے جؤمصیبت کے وقت متاشا اور اس کے بھائی پرساد کؤپولس سے بچاتے ہیں باتوں باتوں میں وہ اپنی زندگی کے حالات بتاتے ہیں جسے سن کر متاشا ان سے شادی پر آمادہ ہوتی ہے اور خوش اسلوبی سے زندگی کے نشیب ؤفراز کؤسہتی ہے ازدواجی زندگی سے جڑی تمام جزئیات نگاری پیش کی گئی ہے ۔جس میں اس کے لیبر پین labour pain سے لیکر اولاد اور پرورش تک کا حا ل بیان کیا گیا ہے۔جس میں اتنی مصروف ہوجاتی ہے کہ خود کؤبھول جاتی ہے حتیٰ کے سوتیلے بچوں کؤبھی ماں کا پیار دیتی ہوئی بڑا کرتی ہے ۔مگر گوتم کے انتقال سے یہ بچے اسے پھر سے سڑک پر لاکھڑاکردیتے ہیں۔
            متاشا کے پاپا کا کردار ہندوستانی دقیانوسی سوچ رکھنے والے ایک عام سے انسان کا کردار ہے وہ اڑیسہ کے ”بیل پہاڑ “ میں ٹاٹا کی ایکسپورٹ اینٹ مل فیکٹری میں فورمین تھے گندی گالیاں بکنے کے عادی تھے ۔بات بے بات متاشا پر نفرت کا اظہار کرتے یعنی پیٹتے ،اپنی ماں سے چوری چھپے ساری جائیداد اپنے نام کر چکے تھے ۔یہاں ناول نگار نے اس کردار کی نفسیاتی ؤذہنی الجھنوں کؤاشارے ؤکنائے میں پیش کیا۔ یہ کردارکھل کر سامنے نہیں آتا بس مردانگی کے زعم میں خود کؤبحال رکھنا چاہتا ہے مفاد پرست راؤ نڈ کردار ہے اپنے فائدے کے لیے اپنی بیٹی کی شادی ایک بے جوڑ لڑکے بھرت سے کروانا چاہتے ہیں ۔مگر ماں یہاں اپنی آواز بلند کرتی ہے یعنی خود پر کیے ظلم وہ معاف کردیتی ہے مگر اپنی اولاد پر ہورہے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ متاشا کے والد کی ذہنی ؤنفسیاتی کیفیت ان مکالموں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
’’میتا کؤایک اچھی ساڑی پہنا دؤ۔آج بیٹی کؤکولکاتہ گھمانے لے جانا ہے“پاپا نے انہیں کہا۔کیا بات ہے،پاپا کؤتم پر بہت پیار آرہا ہے کہیں بَلی کا بکرا بنانے تؤنہیں لے جارہے ہیں ؟ “ موسی نے چپکے سے میرے کان میں کہا۔میں گھبرا گئی ،مگر کیا کہہ سکتی تھی۔
ہم ایک بڑے ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے پاپا کے پرانے جگری دوست موریشور کاکا وہیں آگئے۔ وہ پہلے ہی کی طرح گرمجوشی سے مجھے ملے ۔سینے سے لگا لیا اور پاس بٹھا لیا۔ اچانک پاپا نے کیا۔”موریشور متاشا کؤتم چائنا ٹاؤ ن گھما لاؤ ۔مجھے ذرا کام ہے۔مین تم لوگوںکؤبعدمیں جوائن کر لونگا۔
ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
اگلے دن صبح ہاسٹل کے ریسپشن میں پاپا موجود تھے ۔بھرت بھی ساتھ تھا۔ کیا بات ہے پاپا۔میں نے بھرت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا میرا انداز کچھ ایسا تھا کہ دونوں سٹپٹا گئے۔ماں کؤکوئی چھٹی دینا ہؤتؤدے دینا ۔“اور پھر مجھے ایک طرف لے جاکر کہا ۔”بات کر “ انہوں نے گردن کی جنبش سے بھرت کی طرف اشارہ کیا ۔
کیوں کروں ؟“کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔میں ان کاچہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔کیونکہ مجھے ان کی ناراضگی سے ڈرنا نہیں تھا“ ٹھیک ہے ایک گھنٹے میں بھرت آئے گا ۔تؤاس کے ہاتھ چھٹی دے دینا “۔پاپا پلٹ کر بھرت کی بانہہ مضبوطی سے پکڑے ہوئے نکل گئے۔

            باپ کی نفرت کا عجیب ؤغریب منظر پیش کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کؤچھوٹے چھوٹے کپڑے پہنا کر اپنے دوستوں اور لڑکوں سے ملواتا ہے۔یوراج سے کی ہوئی منگنی توڑنے کے عوض میں متاشا کے والد کے غصے کی حد اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے عمر کے دوست موریشور کاکا سے اس کی عزت کؤداغدار کرواتا ہے۔جس سے متاشا انجان تھی ۔قاری بھی تذبذب کے عالم میں رہتا ہے ناول نگار نے اشارتاًسب کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری فیصلہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔یہ کردار غیر اہم ہوتے ہوئے بھی مرد سماج کی گری ہوئی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے عمر کے آخری حصے میں بیٹی کؤدیکھ کر پچھتاوے آنسؤرونا ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کؤوہ فعل کیا تھا۔کردار نگاری ناول کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے کہانی کوئی سناؤ  متاشا اس کا بین ثبوت ہے۔
            متاشا کی ماں کا کردار بنگالی برہمن گھرانوں کی گھریلؤہندوستانی عورت کا ہے ۔شوہر اس پر ظلم ؤزیادتی کرتا ہے مگر وہ بھگوان کی مرضی مان کر زندگی گذارتی ہے در گذر کرنے کی عادت اسے زندگی کے مثبت پہلؤپر قائم رکھتی ہے۔ساری عمر ساس ،سسر اور شوہر کی اطاعت کرتی ہے مگر اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے دربدری اختیار کرنے پر مجبور ہے ایک عمر گذارنے کے باوجود بھی وہ اپنے شوہر کی ہمدردی نہ پاسکی ہمیشہ معاشی اعتبار سے وہ شوہر پر نربھر رہی ۔لیکن بیٹی ،بیٹوں کؤساس کی ذمہ داری گھر سے نکال دینے کے بعد اٹھاتی رہی۔ماں جؤپہلے شوہر کے اثر سے بیٹی کؤمارا پیٹا کرتی تھی اب اپنی اصل خؤکی طرف لوٹ آتی ہے اور متاشا کی ہمنوا اور رازداں بن کر زندگی گذارتی ہے یہ کردار اپنے فطری انداز میں سادہ لیکن جاندار اور مضبوط بن کر سامنے آتا ہے۔
            متاشا کے بیٹے کا کردار معصوم اورذہنی ؤنفسیاتی الجھنوں میں گھرا ہوا ایک ایسا نوجوان کے طور پر سامنے آتا ہے جؤباپ کے گذرنے کے بعد ماں کا اکلوتا سہارا ہے سوتیلے بھائیوں کی چالبازیوں سے پریشان غم وغصے میں اپنی زندگی کی ڈور کؤسنبھالنے کی کوشش کرتا ہے پڑھائی نہ مکمل رہ جاتی ہے ماموں کے پاس رہ کر مامی کے طعنے سننے پڑتے ہیں ۔وکیلوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں مگر زندگی کی یہ سختی آستا کی بے وفائی کی وجہ سے اورسخت معلوم ہوتی ہے جس پر وہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے اپنی عمر سے بڑی نونیتا سے ناجائز رشتہ قائم کر لیتا ہے جس پر خود لعن طعن کرتے ہوئے کئی کف سیرپ پی کر جان دینے کی کوشش کرتا ہے۔جس پر متاشا اسے سنبھال لیتی ہے اور اس کی ذمہ داری بنالیتی ہے۔دیپیش کا کردار متاشا کی زندگی کا محور ہے ۔ماںکؤوہ دکھ دیتا ہے اور پچھتاتا رہتا ہے اپنی ذمہ داریوں کؤنہ اٹھانے کا احساس اسے زندگی سے دور لے جاتا ہے۔اس کے علاوہ انکت جؤکہ متاشا کا سوتیلا بگڑا ہوا بیٹا ہے ویلن کے طور پر سامنے آتا ہے وہ متاشا کؤگندی نظر وں سے دیکھتا اور چھوتا ہے اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر وہ اسے مارتا پیٹتا ہے ساری جائداد تمام زیور نکال لیتا ہے دیپیش کؤبھی مارتا اور گالیاں دیتا ہے اس پر متاشا جب احتجاج کرتی ہے تؤوہ نڈر ہوکر سامنے کھڑا ہوجاتاہے۔
انکت بہانے بہانے سے مجھ پر ہاتھ اٹھانے لگا ۔کبھی سر پر ،کبھی بانہہ پر ،تؤکبھی پیٹھ پر اور یہ مار ہمیشہ ہلکی نہیں ہوتی تھی۔دیپؤکا بھی یہی حال تھا۔گلی کے نکڑ پر ایک بوڑھے پاگل کؤمیں ہمیشہ دیپؤکے ہاتھوں کھانا بھجوایا کرتی تھی۔
            انکت کا یہ رویہ متاشا کؤواپس نن بننے پر مجبور کرتاتھا ۔مگر ؤہ واپس اپنی ذمہ داری کی طرف لوٹ آتی ہے اس کے علاوہ گوپی ،دادی ،پرساد،پرشانت،بھوشن،خوشبو،پوروی،کومل ،ایسے کئی کردار ہیں جؤناول کؤآگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔کوئی بھی کردار غیر ضروری محسوس نہیں ہوتاحالات اور واقعات کے تسلسل کے پیش نظر یہ ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔
            ناول کا اختتام نونیتا کے ماں بننے کی خبر سے ہوتا ہے ۔متاشا کا ذہن اسے بہؤماننے سے پہلے انکار کرتا ہے مگر یہ خبر سن کر اس کے ذہن پر مختلف سوالات کی بوچھاڑ پڑتی رہتی ہیں ۔اچانک اس کے دل میں درد اٹھتا ہے مگر ذمہ داری کے احساس سے وہ اس درد کی وادی کؤپار کرکے زندگی کی نئی امنگ کے ساتھ نیا خواب سجاتی ہے۔ملاحظہ ہو
عورت اپنی مرضی سے کہاں جاسکتی ہے وہ مذہب کے کام بھی نہیں کرسکتی ۔عورت ہی نہیں مرد کے پیروں میں بھی بیڑیاں ہیں! انہیں بیڑیوں کے ساتھ چلتے چلتے جارہے ہیں !میں کہاں جاؤں گی تؤپاستر یہی کہیں گے ابھی بچے کؤسیٹل کرنا ہے۔

            یعنی اپنی اولاد کی غلطی کؤوہ قبول کرکے ذمہ داری اٹھانے کا سکون نونیتا کؤعطا کرتی ہے۔اس طرح ناول کا اختتام ہوتا ہے۔
اس سے کہنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔پھر بھی نہیں مانتا تؤبچہ مجھے دے کر کہیں اور اپنی زندگی بسا لینا میں تمہیں اپنے بیٹے کی ذمہ داریوں سے آزاد کرتی ہوں۔
میں نے اس کے چہرے پر ایک سکون دیکھا ۔پل ہی پل میں وہ ایک ہمکتے ہوئے بچے میں تبدیل ہوگئی اور ہاتھ بڑھا کر اپنی توتلی زبان میں کہنے لگی۔اب کیسے جاؤ گی دادی۔۔۔۔!!!“

            زندگی کاوہ کونسا موڑ ہے جؤاس ناول میں عیاں نہیں ۔کرداروں پر پوری گرفت ہے متاشا کا کردار عورت کی ایک فطری خواہش گھر بسانے کی آرزؤسماجی تحفظ اور وقار کی تمنا کؤظاہر کرتا ہے جؤایک صحت مند ذہنی رویہ ہے۔

کیا سوچا تھا ،کیا ہوا ،پربھا کر سے مل کر ارمان جگے تھے ۔ایک شوہر ہؤ،ڈھیر سارے پیارے پیارے بچے ہوں،شوہر ر شتہ داروں کؤخوش رکھوں،ان کؤاپنا سب کچھ بنالوں ،سکون ہی سکون ۔مگر ایسا الٹ پلٹ ۔دیپؤکے بعد چار سوتیلے بچے،دؤدیوروں کے بچے اپنا شوہر ،مجھے بات بات پر غصہ آتا۔

            ہیرؤکا کردار نمایاں نہیں ہے متاشا کی زندگی میں مختلف مرد تؤآتے ہیں مگر کوئی اس سے وفا نہیں کرتا ۔اکثر کرداروں کا تعارف ایک پیراگراف میں ناول کی کہانی پن کؤختم کئے بغیر آگے بڑھتا ہے ۔جس شہر یا ماحول سے تعلق رکھنے والے کردار ہیں۔ اسی طرح کی زبان کا استعمال ہوا ہے۔کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کؤمعمولی معمولی باتوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ناول میں چھوٹے چھوٹے ابواب کی اقسام ملتی ہیں کچھ ابواب ایک پیراگراف یا ایک ڈیڑھ صفحے کے ہیں سبھی ابواب کی ضمنی سرخیاں ہیں جیسے شاستری ،ننہال ،پاپا ،دادی کا گھر، پاپا کا گھر ،ہؤسٹل ،منالی،بمبئی نگری،بے بی انکت،مار،بانی ماں ممی کا بیچلر ہڈ،پریما، سدھی دا،غیبی مدد اروی کی شادی آرینج اور ساماں بک گیا۔برتھ ڈے نونیتا ،دیپیش اور سانس سانس سنگھرش (جدؤجہد) وغیرہ یعنی ناول میں کہیں الجھاؤ  نہیں ہے۔کہانی متاشا کے ارد گرد گھومتی ہے جؤکہ ایک مکمل عورت ہے اس میں محبت،عزم ،صبر جیسے اوصاف ہیں جؤکبھی اسے بھٹکنے نہیں دیتے۔لیکن باپ کے نزدیک بد چلن بن جاتی ہے۔لڑکوں کی نظر میں حاصل کرنے کی شئے ،ٹیچر کی نظر میں غلط ماحول میں پلی بڑھی لڑکی،چچا کی نظر میں ہوس اور شہوت کی آگ سرد کرنے کی چیز بن جاتی ہے تؤکبھی پربھا کر اور سمیر کے لیے بغیر رشتے کے محبت کئے جانے کے قابل ،یہ رویے اسے کسی شئے میں تبدیل کرتے ہیں ،ہر مرد اس کؤبغیراسکی خواہش کے چھونے پر آمادہ ۔کوئی اس کی اہمیت ؤضرورت کؤمحسوس نہیں کرتا ۔پھر بھی وہ ثابت قدم رہتی ہے سب کچھ سمجھتے ہوئے بیان سے معذور ہے ۔یعنی سارے مرد کردار مطلبی موقع پرست ،بزدل دکھائی دیتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کردار جیسے متاشا کی سوتیلی بیٹیاں، بھابھیاں ،نندیں بے بی(سوکن) وغیرہ بھی اسی طرح کے مطلبی ؤموقع پرست کردار ہیں جؤflat کرداروں کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں۔
            ناول کا پلاٹ انسانی زندگی کی طرح بکھراؤ، انتشاراؤر الجھاؤ  وتصادم لیے ہوئے ہے خود متاشا اپنی کہانی کؤٹی وی سیریل کی طرح محسوس کرتی ہے۔
میں اپنی زندگی کؤسوچتی ہوں تؤلگتا ہے سارے سیریلس پھیکے ہیں ،کوئی میری زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھ لے تؤاسے بھی سارے سیریل پھیکے پھیکے سے لگیں۔
            مندرجہ بالا عبارت متاشا کی زبانی خود کلامی کے انداز میں اس کے درد اور اس کی مفاہمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ناول کے مکالمے اور منظر نگاری بھی منفرد ہے ،ہر طبقے کے لوگوں کی زبان اسی کی مناسبت کے ساتھ پیش کی گئی ہے یہاں ہمیں ماننا پڑے گا کے صادقہ نواب سحر کؤانسانی نفسیات سے گہری واقفیت ہے۔نسوانی ؤمردانہ کردار دونوں کی نفسیات پر ان کی گرفت مضبوط ہے ۔اسلوب کی ندرت ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ دریا بہتا چلا جارہا ہے ۔۴۲۲ صفحات پر مشتمل یہ ناول ہمیں اکتاہٹ کا احساس نہیں دلاتا ۔سچ ہے بہترین تخلیق آپ ہی آپ بولنے لگتی ہے ۔مثال کے لیے رفیق اور انکت کے درمیان ہوئے مکالمے ملاحظہ ہوں۔
پیسہ ادھر رکھ اور کھسک لے
اسے غصہ آگیا ،دھیرے سے بولا ۔
انکت تیرا اپنا کچھ نہیں ہے۔اپن تیرے کؤحساب نہیں دے گا ۔سیٹھ کدھر ہے؟ اپن بعد میں آئے گا ۔
کائے کا سیٹھ ،
تیری جوانی میں جوش آگیا کیا ؟

            کئی جگہ انگریزی ؤہندی الفاظ ناول کی زبان بوجھل کئے بغیر عصری حالات کے اثرات کؤنمایاں کرتے ہیں۔ناول میں دؤایک جگہ کرداروں کا طویل تعارف گراں معلوم ہوتا ہے جیسے آستا کا کردار اس کے طویل خط سے ظاہر ہوتا ہے قاری اسے جلد سے جلد ختم کرکے واپس متاشا کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ دوسری طویل گفتگؤپھؤپھا جی کی ہے جس میں گجرات انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا تعارف ناول نگار کی گہری معلومات کا پتہ دیتی ہے۔
۷۶۔۶۶۹۱ءمیں جی آئی ڈی سی کی بنیادپڑی چرک ،راکیور ،ایڈ جیل ،بھانگر برادر کارپوریشن، الیکٹرک ،ہریش ٹیکسٹائلس،پروسینگ میٹریز،کچھ اچھی اچھی پرانی کمپنیاں اب بند ہؤچکی ہیں اور ہاں سوین بیوٹی(swan beauty) جؤاب پونے شفٹ ہوگیا ہے۔
            یہ پھؤپھا جی کی یادوں کا حصہ ہیں مگر متاشا کی بے چینی کؤکم کرنے کا سبب نہیں بن پاتے ۔علاوہ ازیں منٹرس کا ذکر ایکٹروں کے گھر کا ذکر،سنیما تھیٹر کے کلچر کا ذکر ناول کا حصہ بن کر سامنے آتے ہیں ۔بقول مسرور جہاں
الف لیلیٰ اور طلسم ہوشربا کی طرح متاشا کی کہانی بھی ہمیں داستان کا لطف دیتی ہے “ پھر کیا ہؤ؟ یہ سوال ہی اس ناول کی کامیابی کا ثبوت ہے میری دعا ہے کہ صادقہ نواب سحر یوں ہی برقرار رہے اور ان کی زندگی میں آنے والی نئی سحر کامیابیوں کی نوید لائے آمین۔
            بے شک داستان کا طلسم اور سوانح کی خوبی اس ناول کی شہرت کا سبب بنے ہؤئے ہیں لیکن ساتھ ہی ناول نگار نے
 جس طرح ہندوستان کی تقریباً ہر تہذیب اور ہر علاقے کا احاطہ کیا ہے اور جغرافیائی علاقے کا نقشہ بھی کھینچا ہے اور اپنے عصر کے live relationship کؤبھی بیان کیا ہے۔غرض ناول ”کہانی کؤئی سناؤمتاشا “ عورت کی نجات کی اہمیت پر زور دیتا ہے کیونکہ عورت کی نجات پورے سماج کی نجات ہے اور یہ نجات اکیلے نہیں پورا معاشرہ اس کے لیے آگے آنا چاہیئے۔


٭٭٭٭٭


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...