غزل
آرام سے سوجاؤ ابھی دھوپ بہت ہے
باہر نہ نکل آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
باہر نہ نکل آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
سچ ہے کہ ہمیں ملتی ہے رحت تمہیں دیکھے
تم بام پہ مت آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
تم بام پہ مت آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
جو کچھ بھی ہو شاپنگ وہ سبھی شام میں کرلو
بازار نہیں جاؤ ابھی دھوپ بہت ہے
بازار نہیں جاؤ ابھی دھوپ بہت ہے
ملنا تو ہمارا نہیں فی الحال ضروری
کل پرسوں چلے آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
کل پرسوں چلے آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
رخساروں کو گرمی سے بچائے ہوئے رکھنا
گھونگھٹ کو نہ سرکاؤ ابھی دھوپ بہت ہے
گھونگھٹ کو نہ سرکاؤ ابھی دھوپ بہت ہے
بے کار نہیں مان لو اجمل کی یہ باتیں
باہر ذرا دیکھ آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
باہر ذرا دیکھ آؤ ابھی دھوپ بہت ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں