مولانا
ابوالکلام آزاد
ہزاروں سال نرگس اپنی
بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے
چمن میں دیدور پیدا
ایسی ہی دیدور شخصیت
سرزمین مکہ (حجاز)سعودی عربیہ میں 11/نومبر 1888ء کو ایک عربی گھرانے میں پیدا ہوئی۔جن
کا نام نامی اسم گرامی ابوالکلام محی الدین آزادرکھا گیا۔
مولانا آزاد کے متعلق
بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن میرا مقصد تقریر یہاں مولانا آزاد کے نثری
قدمات کو اجاگر کرنا ہے۔ میں الہلال والبلاغ، ان کے خطوط کے مجموعہ "غبار
خاطر" کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔
بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں میں مولانا
پر کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی دشوار ہے ۔ آسان ان معنوں میں کہ ان کی شخصیت
ایک ایسے دیوتا کے مانند ہے جس کے بت کے سائے رقص کرکے پوری عمر گزاری جا سکتی ہے۔
اور دشوار اس طرح کہ ان کے ادبی کارناموں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لیے جب ہم
ادب کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں یا اس کسوٹی کو استعما ل کرتے ہیں جس پر
عام ادیبوں کا کھر ا کھوٹا پرکھا جا سکتا ہے۔ تو قدم قدم پر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ
یا توہم ان کارناموں کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر ہے ہیں یا وہ کسوٹی جھوٹی ہے۔ جس
کی صداقت پر اب تک ہمارا ایما ن تھا۔ آزاد ہمارے ان نثر نگاروں میں ہیں جن کے
ابتدائی کارناموں پر ہمارے بڑے بڑے انشا ءپرداز سر بسجود ہو گئے تھے۔
مولانا ابولکلام آزاد کی انشا ءپردازی کا
کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب ِ نثر پر
قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و ابلاغ کے
اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب
پایا جاتا ہے۔ ”تذکرے “ کے لیے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی ۔ وہ وہاں موجود ہے۔
غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا
تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لیے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کئے گئے
ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا
غلبہ ہے۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں
نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً ”چڑیا چڑے کی کہانی“
ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی ۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور
ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے
اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا
اقتباس ملاحظہ ہو۔
"لو
گ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں
لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی
خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ
مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا
کام انجام دے دیا۔"
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی
وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز کی پیروی کی
جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے
بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ
ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں، شاعری کے خانے میں
ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قد م قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ
درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ داد نکلتی ہے جیسے
غزل کے شعر سن کر ہی نکل سکتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں،
”اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔
”اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔
نیاز
فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا۔
”
مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے
کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مزید کہتا رہوں گا۔“
مولانا حسرت موہانی نے ابوالکلام کی نثر پر کیا خوب کہا تھا کہ
مولانا حسرت موہانی نے ابوالکلام کی نثر پر کیا خوب کہا تھا کہ
جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
اب
آخر میں ایک شعر جو مولانا آزاد کی شخصیت
پرکھرا اترتا ہے پیش کرتے ہوئے اپنی جگہ لوں گی
شعر
دیکھئے کہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہے
شکریہ خدا حافظ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں