نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

غصہ میں کیا کرنا چاہیے how to control anger

 Abstract  A person who understands the chemistry of anger can easily control anger. “We have sixteen chemicals inside us. These chemicals are our emotional feelings. Our emotions make our moods. Our moods make decisions. And these moods determine our personality.” Each emotion lasts for 12 minutes. This emotion is created by a chemical reaction. “For example, there is no form in our body or it is at least more important than us. Salt ate.” جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“  ”ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں“ ”ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے“ ”مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘
حالیہ پوسٹس

*دسمبر آگٸے ہو تم* *آفتاب عالم قریشی

 *دسمبر آگٸے ہو تم* *آفتاب عالم قریشی* *دسمبر آ گئے ہو تم* *بھٹکتی یاد کے اک زخم  کہنہ کے سجانے کو* *نئے نشتر لگانے کو* *مجھے بیتے ہوئے لمحوں کی ٹھنڈی راکھ میں آتش دکھانے کو* *تو پھر سن لو* *کہ اب اس دل میں اتنی برف ہے جس میں ہر اک موسم ہر اک منظر کو یکسر ڈوب جانا ہے* *جُڑی ہیں جو تمھارے نام سے یادیں* *وہ سب باتیں* *وہ سب اب دفن ہیں اک یخ لحد میں*  *مرے سینے کی حد میں* *سو میرے بے وفا ساتھی،* *جو سب کچھ بھول بیٹھا ہے، سے کہ دو* *دسمبر آنے جانے سے مجھے اب کچھ نہیں ہوتا* *میں اب پرنم نہیں ہوتا* *دسمبر آ گئے ہو تم* *مگر تم کو بتا دوں میں* *نہ مدہم دھڑکنیں ہوں گی نہ بھیگیں گی مِری آنکھیں* *بھلے سے آؤ جاؤ تم یا جتنا وقت ٹھہرو تم* *مجھے اب کچھ نہیں ہوتا* *مجھے اب کچھ نہیں ہوگا*

دکن میں اقبال کا اہم کارنامہ* ✒*حافظ عبدالرحیم*

 *دکن میں اقبال کا اہم کارنامہ*  ✒*حافظ عبدالرحیم*  علامہ اقبال ابتدا ہی سے "اجتہاد فی الاسلام "یا" اسلام میں دینی تفکر کا انداز جدید" اس موضوع پر ہمیشہ غور و فکر کی گہرائیوں میں ڈوبے رہتے اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور علم کے مختلف دائرے میں تازہ تبدیلیوں کا خیال رکھتے ہوئے فکر اسلامی کی تعمیر نو ہو اس لیے کہ اسلام پر صدیوں پرانے جمود کے گرد کی ایسی چادریں ڈھکی ہوئی تھی کہ اس کی اصل صورت نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی تو انہوں نے اپنے برسا برس کے گہرے

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے ۔ از قیصر الجعفری

 دیواروں  سے مل کر رونا  اچھا لگتا ہے  ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے  کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو  شبنم  کا  قطرہ  بھی  جن  کو  دریا  لگتا ہے  آنکھوں کو بھی لےڈوبا یہ دل کا پاگل پن  آتے  جاتے  جو  ملتا  ہے ، تم  سا  لگتا  ہے  اس بستی میں کون ہمارےآنسو پونچھے گا  جو  ملتا  ہے  اس  کا  دامن  بھیگا  لگتا  ہے  دنیا  بھر کی  یادیں  ہم  سے  ملنے  آتی ہیں  شام ڈھلے اس سونے گھر میں  میلہ لگتا ہے  کس کو  پتھر  ماروں  قیصرؔ کون  پرایا ہے  شیش  محل  میں اک اک چہرا اپنا  لگتا ہے 📌 قیصر الجعفری

میں عجب ہی مزاج رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں مزاحیہ غزل

 میں عجب ہی مزاج رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں زہر خندہ زبان. ہے میری یہی پہچان ہر جگہ میری اپنی مرضی سے تولتے ہیں لوگ جانے کیا کیا ہی بولتے ہیں لوگ تم مجھےدودھ کی جلی سمجھو تم مجھے برا یا بھلی سمجھو میری چپ کو نا سمجھو کمزوری طنز کا ہر جواب رکھتا ہوں کرچیاں جوڑنا میں جانتا ہوں اپنوں غیروں کو پہچانتا ہوں عام کو خاص کرنا آتا ہے خاص کو عام کرنا جانتا ہوں اپنی چپ میں بھی چیخ رکھتا ہوں سرد لہجے میں آگ رکھتا ہوں

غزل از ڈاکٹرفرزانہ فرحت لندن خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں ہے

 ڈاکٹرفرزانہ فرحت لندن خواب و خیال کا کوئی انبار مجھ میں ہے کیسا اُداس اک دلِ بیمار مجھ میں ہے عشقِ خدا ہے اور ہے عشقِ رسول بھی یعنی یہ ایک منبعِ انوار مجھ میں ہے یوں ڈوبتی رہیں مری چاہت کی کشتیاں رنج و الم کا درد کا منجدھار مجھ میں ہے لکھتی رہی ہوں میں جسے شعروں میں ڈھال کر وہ جذبہ ء جنوں ہےجو بیدار مجھ میں ہے یہ کہہ گیا ہے مجھ سے محبت کا ایک خواب وہ کون ہےجو اس طرح بیدار مجھ میں ہے شکوہ بھی کرنے دیتا نہیں مجھ کو جو ترا فرحت~ یہ کون تیرا طرفدار مجھ میں ہے

موت موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے- موت " اپنی دنیا" سے نکل کر "

 موت  موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے- موت " اپنی دنیا" سے نکل کر " دوسرے کی دنیا "  میں جانا ہے-  کیسا چونکا دینے والا ہے یہ واقعہ- مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے،  پھر بھی وہ نہیں چونکتا- حالانکہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتا رہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمہارے اوپر بھی گزرنے والا ہے-  وہ دن آنے والا ہے جب کہ کامل ہے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کر دے- موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے- موت کا حملہ سراسر یک طرفہ حملہ ہے-  یہ طاقت اور بےطاقتی کا مقابلہ ہے-  اس میں انسان کے بس میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کامل عجز کے ساتھ فریق ثانی کے فیصلہ پر راضی ہو جائے-  وہ یک طرفہ طور پر شکست کو قبول کرلے-  موت انسانی زندگی کے دو مرحلوں کے درمیان حد فاصل ہے-  موت آدمی کو موجودہ دنیا سے اگلی دنیا کی طرف لے جاتی ہے-  یہ اختیار سے بےاختیاری کی طرف سفر ہے-  یہ امتحان کے بعد اس کا انجام پانے کے دور میں داخل ہونا ہے-...